سورة ھود - آیت 123

وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

زمینوں اور آسمانوں کا علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، تمام معاملات کا رجوع بھی اسی کی جانب ہے، پس تجھے اس کی عبادت کرنی چاہیے اور اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بے خبر نہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اس فرمان میں ایک طرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا عقیدہ کیا ہونا چاہیے اور دوسری طرف داعی حق کے لیے تسلی ہے کہ جو خدمت وہ سرانجام دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔ انجام کار اور صلہ اس کی جناب میں موجود ہے۔ لہٰذا نبی اکرم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ دل چھوٹا کرنے اور مخالفین کی مخالفت کی طرف دھیان دینے کی بجائے اپنے رب کی عبادت یعنی اس کی یاد میں مگن رہیں اور اس کی ذات پر بھروسہ اور اعتماد رکھیں۔ آپ کا رب نہ آپ کی بے مثال محنت واخلاص سے غافل ہے اور نہ ہی حق کے منکروں اور آپ کی مخالفت کرنے والوں کی سازشوں اور شرارتوں سے بے خبر ہے۔ توکل کا معنی ہے کسی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ توکل علی اللہ کا مفہوم ہے کہ بندہ اپنے خالق و مالک پر کامل اعتماد و یقین کا اظہار کر ے۔ جو اپنے رب پربھروسہ اور توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور اس کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔ لہٰذا تنگی اور آسانی‘ خوشی اور غمی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیے۔ یہ غموں کا تریاق اور مشکلات کا مداوا ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّتَوَ کَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہُ إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمرِہٖ قَد جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیءٍ قَدرًا﴾ [ الطلاق :3] ” جو اللہ پربھروسہ کرے اس کے لیے اللہ کافی ہے۔ اللہ اپنا حکم نافذ کرکے رہتا ہے اس نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔“ ﴿وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ﴾ [ یوسف :67 ] ” اس پر ہی بھر وسہ کرنے والوں کو اعتماد کرنا چا ہیے۔“ قرآن و سنت کی روشنی میں توکل کا کامل تصور یہ بنتا ہے کہ وسائل اور اسباب کو استعمال کرتے ہوئے۔ کام کا نتیجہ اور انجام اللہ کے سپرد کیا جائے۔ توکل پریشانیوں سے نجات پانے کا پہلا ذریعہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل ہی نہیں اس کے مسائل کس طرح حل ہوں گے۔ اس لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جب اپنے جواں سال بیٹوں کو شہرِمصر کی طرف روانہ کیا تو اس وقت کچھ ہدایات دیتے ہوئے فرما یا کہ تمہیں شہر میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ میری طرف سے یہ احتیاطی تدابیر ہیں۔ انجام کار تو اللہ ہی کے اختیار میں ہوا کرتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے غیب کو جانتا ہے۔ 2۔ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی دسترس میں ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کی جائے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کیا جائے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں۔ تفسیر بالقرآن : ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے : 1۔ اللہ کی عبادت کرو اور اسی پر توکل کرو۔ (ھود :123) 2۔ جب کسی کام کا عزم کرو تو اللہ پر توکل کرو۔ (آل عمران :159) 3۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کو کافی ہوتا ہے۔ (الطلاق :3) 4۔ مومنوں کو اللہ پر توکل کرنے کا حکم ہے۔ (المجادلۃ:10) 5۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف :67) 6۔ رسول اکرم (ﷺ) کو اللہ پر توکل کرنے کی نصیحت کی گئی۔ (النمل :79) 7۔ حضرت نوح نے فرمایا میں نے اللہ پر توکل کیا ہے تم اپنی تدبیریں اور شریک جمع کرکے زورلگالو۔ (یونس :71) 8۔ حضرت ہود نے فرمایا میں نے اپنے اللہ پر توکل کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ (ہود :56 )