سورة ھود - آیت 114

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی (١) یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں (٢) یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : داعی کے لیے مزید ہدایات۔ حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد پہلا فرض مسلمان پرجو عائد ہوتا ہے۔ وہ پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی ہے۔ یہ وہ فرض ہے جو ہوش و حواس قائم ہونے کی صورت میں مسلمان پر لازم ہے۔ نماز ایسا فرض ہے جس کی سب سے زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ یہاں ایک خاص پس منظر کے تحت اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس کا یہ عظیم فائدہ بیان فرمایا ہے کہ نماز کی ادائیگی سے انسان کی برائیاں دور ہوجاتی ہیں۔ یہ فائدہ اور نصیحت ان لوگوں کے لیے ہے جو اس سے مستفیض ہونے کی کوشش اور تمنا رکھتے ہیں۔ یہاں غم اور برائیوں سے بچنے کے لیے نماز کی ادائیگی کے دو اوقات ذکر کیے ہیں۔ جن کے بارے میں جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ ان سے مراد صبح اور مغرب کی نماز کا وقت ہے۔ بعض اہل علم نے یہ نقطہ بھی اٹھایا ہے کہ ” زُلف“ کی جمع زُلُفاً ہے جو عربی میں جمع کا لفظ کم از کم تین کے لیے بولا جاتا ہے۔ لہٰذا اس میں عشاء کی نماز بھی شامل ہے۔ بہر حال حکم یہ ہے کہ دن کے اطراف یعنی اختتام اور آغاز پر نماز کا اہتمام کیجئے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمان نماز کے تقاضے پورے کرتے ہوئے صبح شام کی نماز ادا کرے تو رات کی پریشانیاں صبح کی نماز کے وقت اور دن بھر کی غمناکیاں مغرب کی نماز کی ادائیگی کے ساتھ ہلکی ہوجائیں گی۔ نماز پڑھنے سے گناہ دور ہونے کے دو مفہوم ہیں۔ سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اگر نماز کے تقاضے پیش نظر رہیں تو آدمی آئندہ کے گناہوں سے بھی بچ جاتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ () قَال الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَۃُ إِلَی الْجُمُعَۃِ کَفَّارَاتٌ لِمَا بَیْنَہُنَّ) [ رواہ مسلم : کتاب الطہارۃ، باب الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَۃُ إِلَی الْجُمعۃِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک کفارہ ہیں ان گناہوں کا، جو ان کے درمیان سرزدہوتے ہیں۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ۔أَنَّ رَجُلاً أَصَابَ مِنَ امْرَأَۃٍ قُبْلَۃً فَأَتَی النَّبِیَّ () فَأَخْبَرَہُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ ﴿أَقِمِ الصَّلاَۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ﴾ فَقَال الرَّجُلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَلِی ہَذَا قَالَ لِجَمِیْعِ أُمَّتِی کُلِّہِمْ) [ رواہ ا لبخا ری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الصلاۃ کفارۃ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی عورت کابوسہ لیا۔ پھر وہ نبی (ﷺ) کے پاس آیا اور اپنے گناہ کے بارے میں بتلایا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (نماز قائم کرو دن کے کناروں میں اور رات کی گھڑیوں میں بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں) پھر اس آدمی نے عرض کی۔ اے اللہ کے رسول ! یہ میرے لیے ہے یا تمام امت کے لیے آپ (ﷺ) نے فرمایا تمام امت کے لیے۔“ ” حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول محترم (ﷺ) سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کیا۔ آپ فرماتے ہیں تم ہمارے ساتھ دو دن نمازیں ادا کرو۔ پہلے دن جب سورج ڈھلا ہی تھا تو بلال کو اذان کا حکم دیا۔ اس کے بعد اقامت ظہر ہوئی پھر بلال (رض) کو نماز عصر کی اقامت کا حکم فرمایا جبکہ سورج کافی بلند اور دھوپ تیز تھی پھر سورج غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز کھڑی فرمائی ابھی سورج کی سرخی ختم ہونے ہی پائی تھی تو عشاء کی نماز قائم کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر صبح کی نماز کا حکم دیاجبکہ فجر ابھی نمودارہی ہوئی تھی۔ جب دوسرا دن ہوا تو بلال (رض) کو نماز ظہر ٹھنڈی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس نے خوب ٹھنڈے وقت میں اذان کہی۔ نماز عصر تاخیر سے ادا فرمائی اسے پہلے دن سے قدرے مؤخر کیا لیکن سورج ابھی بلندی پر تھا۔ نماز مغرب سورج کی روشنی کے آثار ختم ہونے سے پہلے ادا کی۔ جب رات کا تیسرا حصہ گزر گیا تو نماز عشا ادا کی گئی، نماز فجر اس وقت ادا کی جب صبح کی روشنی خوب پھیل چکی تھی۔ اب ارشاد ہوا کہ نمازوں کے اوقات پوچھنے والا کہاں ہے؟ وہ عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ تمہاری نمازوں کے وقت ان اوقات کے درمیان ہیں۔“ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلٰوۃ] مسائل : 1۔ نمازوں کی پابندی کرنے کا حکم ہے۔ 2۔ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔ 3۔ نصیحت حاصل کرنے والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ تفسیر باالقرآن : نماز کے اوقات اور فوائد : 1۔ نماز کی پابندی کیجئے دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ( العنکبوت :45) 2۔ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کیلئے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔ (الرعد :22) 3۔ نماز قائم کرنے والوں پر کسی قسم کا خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔ (البقرۃ:277) 4۔ اگر کفار توبہ کریں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ (التوبۃ:5)