فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ
لیکن جو بدبخت ہوئے وہ دوزخ میں ہونگے وہاں چیخیں گے چلائیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 106 سے 107) ربط کلام : شقی یعنی بدعقیدہ اور برے اعمال والے لوگوں کا انجام۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی ہے کہ قرآن مجید کا مستقل یہ اسلوب ہے کہ وہ نیک اور بد، اچھے اور برے، جنت اور جہنم کا ایک دوسرے کے ساتھ ذکر کرتا ہے تاکہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے والاشخص بیک وقت اور برمحل فیصلہ کرسکے کہ اسے کونسا عقیدہ اور راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں نیک وبد کا بیک محل ذکر کیا جارہا ہے۔ چنانچہ کفر و شرک اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب مجرموں کو دہکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا جس آگ کے بارے میں قرآن مجید بتلاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جلائی ہوئی آگ ہے جو لوگوں کے کلیجوں پر اتر جائے گی اور مجرموں کو آگ کے ستونوں کے ساتھ جکڑ دیا جائے گا۔ ( ابراہیم :49) اس آگ میں اس قدر جوش اور شدت ہوگی کہ اس سے گدھے کے ہینگنے کی طرح آوازیں نکلیں گی۔ ﴿زَفِیْرٌ﴾ گدھے کے ہینگنے کی ابتدائی آواز کو کہتے ہیں اور ﴿شَھِیْقٌ﴾ سے مراد گدھے کی وہ آواز ہے جب اسکے ہینگنے کا اختتام ہوتا ہے تو گلے کی آواز کے ساتھ اس کے سینے کی آواز بھی شامل ہوجاتی ہے۔ جہنم کی آگ کے جوش کی وجہ سے اس طرح آوازیں نکلیں گی۔ مجرم اس وقت تک جہنم میں رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم رہیں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ چاہے۔ اللہ تعالیٰ وہی کچھ کرتا ہے جس کا وہ ارادہ فرماتا ہے۔ یہاں جہنمیوں کی سزا کی مدت کا ذکر کرتے ہوئے دو الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ 1۔ جب تک زمین و آسمان قائم رہیں گے جہنمی جہنم میں جلتے اور چلاتے رہیں گے۔ زمین و آسمان سے مراد دنیا کے زمین و آسمان نہیں ہیں یہ تو ختم کردیئے جائیں گے۔ قرآن مجید وضاحت کرتا ہے کہ اس دنیا کے خاتمے کے ساتھ قیامت کے دن دنیا کے زمین و آسمان کے علاوہ اور زمین و آسمان ہوں گے جن کے لیے کوئی فنا نہیں ہوگی۔ (ابراہیم :48) 2۔ اس فرمان میں دوسرے الفاظ ﴿ اِلَّامَاشَاءَ رَبُّکَ﴾ استعمال فرمائے ہیں۔ جن کا لفظی معنی ہے ” مگر تیرا رب جس طرح چاہے“ جس کا عمومی مفہوم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید کفار اور مشرکین کو بھی کسی وقت جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ اس بارے میں اہل علم کے ذاتی اقوال اور استنباط ہیں۔ کہ ایک مدت کے بعد کفار اور مشرکین کو بھی جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ جس کی قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔ البتہ عقیدۂ توحید رکھنے والے کبیرہ گناہوں کے مرتکب مجرموں کو ان کی سزا پوری ہونے کے بعد جنت میں داخلہ دیا جائے گا۔ جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں مستند دلائل موجود ہیں۔ اس لیے اِلَّامَاشَاءَ رَبُّکَ‘ کا یہی مفہوم لینا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (ﷺ) یُجَاٗٗءُ بالْمَوْتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَنَّہُ کَبْشٌ أَمْلَحُ۔۔ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہَذَا فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ہَذَا الْمَوْتُ قَالَ وَیُقَالُ یَا أَہْلَ النَّارِ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہَذَا قَالَ فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ہَذَا الْمَوْتُ قَالَ فَیُؤْمَرُ بِہِ فَیُذْبَحُ قَالَ ثُمَّ یُقَالُ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ وَیَا أَہْلَ النَّارِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ )[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا موت قیامت کے دن مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ابو کریب نے کچھ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان روک لیا جائے گا۔ پھر جنتیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو تو وہ اسے پہچاننے کی کوشش کریں گے اور اس کی طرف دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے۔ جہنمیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو وہ بھی پہچاننے کی کوشش کریں گے۔ دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے پھر حکم ہوگا اور اسے ذبح کردیا جائے گا پھر کہا جائے گا اے جنتیو! جنت میں ہمیشہ رہوتمہیں موت نہیں آئے گی۔ اے جہنمیو! جہنم میں ہمیشہ رہو تمھیں بھی موت نہیں آئے گی۔ پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت کی اور انہیں حسرت والے دن سے ڈرایئے جب فیصلہ کیا جائے گا۔ وہ غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لائیں گے۔“ مسائل : 1۔ بد بخت جہنم میں جائیں گے۔ 2۔ جہنم میں مجرم چیخ و پکار کریں گے۔ 3۔ جب تک اللہ چاہے گا مجرم جہنم میں رہیں گے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے سو کرسکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : جہنم میں مشرک اور کفار کا ہمیشہ رہنا اور چلانا : 1۔ بدبخت لوگ جہنم میں ہمیشہ چیختے اور چلاتے رہیں گے۔ (ھود :106) 2۔ مجرم لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الز خرف :74) 3۔ جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ:39) 4۔ جو لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الاعراف :36)