وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ
اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا (١) اس نے کہا کہ اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں (٢) اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا (٣) اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے (٤) پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : قوم ھود کے بعد قوم ثمود کو دنیا کی فراوانی عطا کی گئی۔ مگر انہوں نے بھی قوم عاد کا رویہ اختیار کیا۔ قوم ثمود دنیا کی ترقی میں یدطولیٰ رکھتی تھی۔ یہ قوم اس قدر ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے میں بڑے بڑے محلات بنا رکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ان کے بھائی حضرت صالح (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز وہیں سے کیا جہاں سے حضرت نوح اور حضرت ھود ( علیہ السلام) نے کیا تھا۔ انہوں نے اپنی قوم کو فرمایا کہ اے میری قوم! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ عبادت کا جامع مفہوم یہ ہے کہ آدمی اپنے فکر و عمل کو پوری طرح اللہ کے حکم کے تابع کردے۔ چنانچہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں اس اللہ کی عبادت کا حکم دیا جا رہا ہے، جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس میں آباد کیا۔ لیکن تم اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی غلامی کی بجائے بغاوت پر اتر آئے ہو۔ تمہیں سابقہ گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے آئندہ کے لیے سچی توبہ کرنی چاہیے۔ یقین کرو کہ میرا رب ہر انسان کے قریب ہے اور سچے دل سے توبہ کرنے والے کی جلدہی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنے خطاب میں ” ھو انشاکم فی الارض“ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر انسان یعنی آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور اس مٹی سے انسان کی خوراک کا بندوست کیا اور زمینی وسائل کی بنیاد پر ہی انسان نشوونما پاتا ہے۔ بالآخر اسی زمین میں اس نے دفن ہونا ہے اور دوبارہ اسی سے نکل کر اللہ کے حضور پیش ہونا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اس خطاب میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے قریب تر ہے اور اس کی عبادت اور توبہ و استغفار کو قبول کرتا ہے۔ قوم ثمود نے قوم نوح اور قوم ھود کی طرح اپنے بزرگوں کے مجسمے بنا رکھے تھے اور ان کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ نہ صرف اس طرح اللہ کی عبادت کرنے میں لذت آتی ہے بلکہ ان کی ارواح ہماری فریادیں سن کر اللہ کے حضور پہنچاتی ہیں۔ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیتے ہیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے نہایت حکیمانہ طریقہ کے ساتھ انہیں سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے لیے صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ انسان سچے دل سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے براہ راست ایک اللہ کی عبادت کرے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (ﷺ) یَا أَیُّہَا النَّاسُ تُوْبُوْا إِلَی اللَّہِ فَإِنِّی أَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ مائَۃَ مَرَّۃٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب اسْتِحْبَاب الاِسْتِغْفَارِ وَالاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ] ” حضرت ابن عمر (رض) سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا لوگو! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو۔ بلاشبہ میں ہر روز سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔“ مسائل : 1۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ 2۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے معبود ان باطل کی نفی کی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بندے کے قریب تر ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور اس سے بخشش طلب کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ بندے کے قریب تر ہے : 1۔ میرا پروردگار قریب ہے اور قبول کرنے والا ہے۔ (ھود :61) 2۔ جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو بتا دیں بے شک میں قریب ہوں۔ (البقرۃ:186) 3۔ ہم ان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ (ق :16) 4۔ ہم تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھتے نہیں۔ (الواقعۃ:85) 5۔ آدمی جہاں کہیں ہو اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ (الحدید :4) 6۔ آدمی تین ہوں تو چوتھا ان کے ساتھ اللہ ہوتا ہے۔ پانچ ہوں تو چھٹا اللہ ہوتا ہے اس سے زیادہ ہوں یا کم ” اللہ“ ہر وقت آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ (المجادلۃ:7)