قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ ۚ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ
فر ما دیا گیا کہ اے نوح! ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر، (١) جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کی بہت سی جماعتوں پر (٢) اور بہت سی وہ امتیں ہونگی جنہیں ہم فائدہ تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انھیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا (٣)۔
فہم القرآن : ربط کلام : عذاب کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا کشتی سے سلامت اترنا اور ان کے لیے برکات کے دروازے کھلنا۔ بارش تھم جانے اور زمین کے خشک ہونے کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ اے نوح! آپ اور آپ کے ساتھی زمین پر اتر جائیں۔ ہماری طرف سے آپ اور آپ کے متبعین پر سلامتی اور برکات کا نزول ہوگا۔ جو لوگ کفرو شرک کا راستہ اختیار کریں گے، ہم انہیں دنیا میں اسباب ووسائل دیں گے پھر آخرت میں انہیں اذیّت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ دنیا کی زندگی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بنیادی اصول ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں اور اس کے تقاضے پورے کریں انہیں دنیا کی ترقی سے سرفراز کیا جائے گا۔ اس کے لیے قرآن مجید ﴿یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا﴾ یعنی انہیں متاع حسنہ سے نوازا جاتا ہے۔ حسنۃ کا لفظ جب دنیا کے بارے میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا معنی ہے کہ دنیا کی ایسی ترقی جو انسان کو خوشحالی کے ساتھ ساتھ عزت دے۔ اور حسنۃ کا لفظ جب آخرت کے بارے میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا معنی ہے وہ نیکی اور بھلائی جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردے۔ مسائل : 1۔ انبیاء (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں پر اللہ کی طرف سے سلامتی اور برکات کا نزول ہوتا ہے۔ 2۔ کفر کرنے والوں کو عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔