أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرِمُونَ
کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے خود اسی نے گھڑ لیا ہے؟ تو جواب دے کہ اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہو تو میرا گناہ مجھ پر ہے اور میں ان گناہوں سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو (١)
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے ردِّعمل کا ذکر کرنے کے بعد اہل مکہ کو خطاب۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کی اقوام کے واقعات بیان کرنے کا مقصد محض داستان گوئی اور تاریخ برائے تاریخ دہرانا نہیں۔ قرآن مجید موقع ومحل کے مطابق انبیاء اور ان کی اقوام کی تاریخ کا اتنا ہی ذکر کرتا ہے جتنا مخاطب کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی عظیم جدوجہد کے بیان کے دورانیہ میں حقیقت کی نقاب کشائی اور رسول کریم (ﷺ) کو حوصلہ دینے کی خاطر فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی! نوح (علیہ السلام) کی عظیم جدوجہد اور بے مثال حوصلے کو سامنے رکھ کراپنا کام جاری رکھو۔ قرآن مجید کے مخالفوں کو اس موقع پر صرف اتنا فرمائیں کہ تمہارا یہ کہنا کہ میں نے قرآن مجید اپنی طرف سے بنا لیا ہے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر رہنے دو۔ لیکن یادرکھو جو کچھ تم بلا دلیل میری ذات اور قرآن پر الزام لگاتے ہو میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ لیکن تمہیں اس جرم کا اس طرح خمیازہ بھگتنا پڑے گا جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کو اپنی کذب بیانی اور حق کی مخالفت کا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا۔ نبی اکرم (ﷺ) قرآن مجید میں ردّ و بدل نہیں کرسکتے : ﴿وَإِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاءَ نَا اءْتِ بِقُرْاَٰنٍ غَیْرِ ہَذَا أَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ أَنْ أُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِیْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوْحٰی إِلَیَّ إِنِّیْ أَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ قُلْ لَوْ شَاء اللَّہُ مَا تَلَوْتُہُ عَلَیْکُمْ وَلَا أَدْرَاکُمْ بِہِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾[ یونس : 15۔16] ” اور جب ان کے سامنے آپ ہماری واضح آیات تلاوت کرتے ہیں۔ ہماری ملاقات کی امید نہ رکھنے والے کہتے ہیں اس قرآن کے علاوہ کوئی قرآن لے آیا اسے بدل ڈال۔ فرما دیجئے میرے لیے لائق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے تبدیل کروں۔ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو مجھے عذاب عظیم کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہوش کرواگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو میں کبھی تمہارے سامنے قرآن پڑھتا اور نہ ہی توحید لے کر اٹھتا۔ کیا تم غور نہیں کرتے ؟ میں نے چالیس سال کا عرصہ تم میں گزارا ہے اور اس پورے عرصہ میں نہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ ہی اللہ کے ذمہ کوئی بات لگائی۔ اگر تم تھوڑا سا عقل سے کام لو تو میری سچائی اور قرآن کی صداقت کو سمجھ جاؤ گے۔“ ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ، لَأَخَذْنَا مِنْہُ بالْیَمِیْنِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ﴾ [ الحاقۃ: 44تا46] ” اگر رسول کوئی بات گھڑ کر ہمارے ذمے لگا دیتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے پھر اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے۔“ مسائل : 1۔ رسول کریم (ﷺ) کفار پر قرآن مجید کے متعلق الزام لگاتے ہیں۔ 2۔ افتراء پردازی کا وبال اسی پر ہے۔ 3۔ کوئی کسی کے جرم کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : نبی (ﷺ) پر کفار کے الزامات : 1۔ کفار نے کہا کہ آپ (ﷺ) نے قرآن کو خودبنالیا ہے۔ (ہود :35) 2۔ نبی کریم (ﷺ) کو کفار نے جادوگر کہا۔ (الصف :6) 3۔ نبی اکرم کو کفارجادوزدہ کہا کرتے تھے۔ (الفرقان :8) 4۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سبا :43) 5۔ کفارکہتے ہیں کہ آپ (ﷺ) مجنوں ہیں۔ (القلم :51) 6۔ کفار نے کہا کیا ہم اپنے معبودوں کو شاعر ومجنوں کی خاطر چھوڑ دیں؟ (الصٰفٰت :36)