سورة ھود - آیت 32

قَالُوا يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

(قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحث کرلی اور خوب بحث کرلی (١) اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ اگر تو سچوں میں ہے (٢)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 32 سے 34) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے حکیمانہ جوابات کا قوم کی طرف سے بدترین ردِّعمل۔ حضرات! کفار اور مشرکین کے مزاج کا اندازہ لگائیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کس قدر ناصحانہ اور ان کا انداز کتنا حکیمانہ ہے۔ لیکن ان کے مخالف کتنے کج فہم اور منفی سوچ کے حامل لوگ تھے کہ انہوں نے دعوت توحید اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی مخلصانہ اور طویل ترین جدوجہد کو بحث وتکرار اور ایک جھگڑے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی۔ ایسے لوگوں کا شروع سے یہ مزاج ہے کہ یہ دین کے بنیادی مسائل کو بھی علماء کا باہمی جھگڑا قرار دے کر اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سوچ کا یہی انداز نوح (علیہ السلام) کی قوم کا تھا۔ چنانچہ انہوں نے حق تسلیم کرنے کی بجائے جناب نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ اے نوح تو نے ہم سے بہت مدت تک بحث وتکرار اور جھگڑا کرلیا۔ اب اس کا ایک ہی حل ہے کہ جس عذاب کی تو دھمکیاں دیتا ہے۔ اسے ہم پر جلدی لے آو۔ اگر واقعی تو نبوت میں سچا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جواب دیا عذاب لانا میرے بس میں نہیں۔ البتہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہوگا تو تم کسی طرح بھی اس کو ٹال نہیں سکو گے۔ جہاں تک تمہارا یہ کہنا ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ بہت جھگڑا کیا ہے یہ تمہاری منفی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ورنہ میں نے طویل عرصہ تک نہایت خیرخواہی کے ساتھ تمہیں نصیحت کی ہے۔ اگر تم ہدایت پانے کے لیے تیار نہیں تو میری نصیحت کا تمہیں کیا فائدہ؟ جبکہ تم اپنی منفی سوچ اور بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ کے علم میں گمراہ ٹھہر چکے ہو۔ میں پھر تمہیں یہی کہوں گا کہ اپنے رب کو پہچانو۔ بالآخر تم نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ اس نے ہدایت کا معاملہ جبری نہیں رکھا۔ لہٰذا جو گمراہ ہونا چاہتا ہے اسے وہ اس راستے پر کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ مسائل : 1۔ انبیاء (علیہ السلام) کی باتوں کی کفار پرواہ نہیں کرتے۔ 2۔ انبیاء (علیہ السلام) سے کفارعذاب الہٰی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 3۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنا ہر معاملہ اللہ کے سپرد کرتے تھے۔ 4۔ اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ 5۔ اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کی خیر خواہی کام نہیں آتی۔ 6۔ اللہ تعالیٰ جس کو گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا پروردگار ہے۔ 8۔ ہر کسی کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء کرام (علیہ السلام) سے اقوام کا عذاب کا مطالبہ : 1۔ حضرت نوح کو قوم نے کہا کہ جو ہمارے ساتھ عذاب کا وعدہ کرتا ہے وہ لے آ۔ (ہود :32) 2۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف :77) 3۔ مدین والوں نے شعیب (علیہ السلام) سے عذاب نازل کرنے کا مطالبہ کیا۔ (الشعرا :187) 4۔ قوم عاد نے ہود سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف :22) 5۔ کفار نے نبی اکرم (ﷺ) سے کہا کہ تو ہم پر آسمان کا ٹکڑاگرادے۔ (بنی اسرائیل :92)