فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ
اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں (١) اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ (٢) لوگوں کے (٣) اور کوئی نہیں جو بے سوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : قوم نوح کا حضرت نوح (علیہ السلام) کو جواب۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نمائندوں یعنی سرداروں نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تجھے اپنے ہی جیسا آدمی سمجھتے ہیں اور جو تیرے پیچھے چلنے والے ہیں۔ وہ ہم میں نہایت گھٹیا لوگ ہیں اور ہم اپنے آپ پر تم میں کوئی فوقیت نہیں دیکھتے بلکہ ہم تم کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید اور تاریخ کا غورسے مطالعہ کیا جائے تو آدمی اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی طرف سے سب سے پہلے ایسے ہی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی بنا پر ہی اہل مکہ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ نبی ہماری طرح کا انسان ہے۔ نبی تو انسان کی بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ جس کا جواب آپ کی زبان اطہر سے یوں کہلوایا گیا کہ ان سے فرمائیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ چلنے پھرنے، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور دیگر حاجات انسانی کے حوالے سے میں تمہارے جیسا انسان ہوں۔ جو حاجات اور ضروریات تمہیں پیش آتی ہیں بحیثیت انسان میں ان حاجات سے مبرا نہیں ہوں۔ اس لحاظ سے میں تمہارے جیسا انسان ہوں یعنی بنی نوع انسان میں سے ہوں۔ لیکن مجھ پر اللہ تعالیٰ وحی کرتا ہے گویا کہ میں اس کا نامزد نمائندہ ہوں اور اسکا پیغام یہ ہے کہ لوگو! اللہ ایک کے سوا تمہارا کوئی اِلٰہ نہیں۔ (الکہف :110) حضرت نوح (علیہ السلام) کو دوسرا طعنہ یہ دیا گیا کہ تیرے ماننے والے ہماری سوسائٹی کے نچلے درجے کے لوگ ہیں۔ یہی طعنہ نبی معظم (ﷺ) کو بھی دیا گیا کہ تیرے قریب رہنے والے لوگ غریب کنگال اور نوکرچاکر قسم کے لوگ ہیں۔ اگر ان کو تو اپنے آپ سے دور ہٹائے تو ہم آپ کے قریب ہونے کے لیے تیار ہیں۔ قوم نوح کا یہ بھی کہنا تھا کہ تم لوگوں میں ہم اپنے پر کوئی فضیلت اور فوقیت نہیں دیکھتے یہ کہنا بھی ان کے تکبر اور رعونت کی وجہ سے تھا۔ ورنہ انبیاء کے پیروکار کردار کے سچے اور اعلیٰ اخلاق کے نمونے ہوا کرتے تھے جن میں سے کسی ایک کا مقابلہ ان کی پوری قوم سے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جہاں تک پیغمبر کی سیرت کا تعلق ہے وہ تو اپنے دور کا منفرد اور ممتاز انسان ہوا کرتا ہے اس لیے یہ کہنا کہ پیغمبر یا اس کے تابع فرماں لوگوں میں کوئی افضلیت کی بات نہیں۔ اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں ہوسکتا۔ لیکن کفار بالخصوص ان کے لیڈروں کا یہی پروپیگنڈہ ہوا کرتا تھا کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ اہل مکہ کا وطیرہ : (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) أنَّہٗ قَالَ مَرَّ الْمَلأ مِنْ قُرَیْشٍ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ وَعِنْدَہٗ صُہَیْبٌ وَخَبَابٌ وَبِلَالٌ وَعَمَّارٌ وَغَیْرُہُمْ مِنْ ضُعَفَاءِ الْمُسْلِمِیْنَ، فَقَالُوْا یَا مُحَمَّدُ اأرَضِیْتَ بِہَؤلَاءِ عَنْ قَوْمِکَ ؟ أفَنَحْنُ نَکُوْنُ تَبَعاً لِہَؤُلَاءِ ؟ أطْرُدْہُمْ عَنْ نَفْسِکَ، فَلَعَلَّکَ إنَ طَرَدْتَہُمْ اتَّبَعْنَاکَ، فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَا أنَا بِطَارِدِ الْمُؤمِنِیْنَ فَقَالُوْا فَأقُمْہُمْ عَنَّا إذَا جِئْنَا، فَإذَا أقَمْنَا فَأقْعُدْہُمْ مَعَکَ إنْ شِئْتَ، فَقَالَ نَعَمْ طَمْعاً فِیْ إیْمَانِہِمْ) [ تفسیر الرازی] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ قریش کے سردار رسول اللہ (ﷺ) کے پاس سے گزرے اور آپ کے پاس صہیب، خباب، بلال، عمار اور ان جیسے کمزور مسلمان بیٹھے ہوئے تھے قریش نے کہا کیا آپ اپنی قوم میں سے ان کے ساتھ راضی ہیں اور ہم ان کی وجہ سے آپ کی تابعداری کرنے والے نہیں ہیں ان کو اپنے آپ سے دور کردیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر آپ انہیں اپنے سے دور کردیں تو ہم آپ کی اطاعت کرلیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا میں مومنوں کو دور نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا جب ہم آئیں تب آپ انہیں اٹھا دیا کریں جب ہم اٹھ جائیں۔ پھر انہیں اپنے پاس بٹھانا چاہیں تو بٹھا لیں آپ نے ان کے ایمان لانے کے لالچ سے فرمایا ٹھیک ہے۔“ مسائل : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو قوم نے اپنے جیسا انسان سمجھ کر جھٹلایا۔ 2۔ انبیاء ( علیہ السلام) کے تابع فرماں اکثر غرباء ہوتے ہیں۔ 3۔ کفار ایمانداروں کو حقیر جانتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء کرام (علیہ السلام) پر کفار کے الزامات : 1۔ حضرت نوح کو ان کی قوم نے کہا کہ ہم تمہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (ہود :27) 2۔ کفار نے تمام انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات :52) 3۔ نبی (ﷺ) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ (الصف :6) 4۔ کفار آپ کو شاعر قرار دیتے تھے۔ (الطور :30) 5۔ قوم فرعون نے موسیٰ کو جادوگر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص :36)