أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
کیا وہ شخص جو اپنے رب کے پاس کی دلیل پر ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف کا گواہ ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (گواہ ہو) جو پیشوا و رحمت ہے (اوروں کے برابر ہوسکتا ہے) (١) یہی لوگ ہیں جو اس پر ایمان رکھتے ہیں (٢) اور تمام فرقوں میں سے جو بھی اس کا منکر ہو اس کے آخری وعدے کی جگہ جہنم (٣) ہے پس تو اس میں کسی قسم کے شبہ میں نہ رہنا، یقیناً یہ تیرے رب کی جانب سے سراسر حق ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان والے نہیں ہوتے (٤)۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ اور آخرت کا وہی شخص انکار کرسکتا ہے۔ جس کا ضمیر مردہ ہوچکا ہو۔ زندہ ضمیر شخص کی ہدایت کے لیے درج ذیل دلائل میں سے کوئی ایک دلیل بھی کافی ہے۔ یہاں اس سے پہلی آیات کا مضمون سامنے رکھتے ہوئے اس شخص کے ساتھ مقابلہ کیا جارہا ہے جو زندہ ضمیر ہو اور اس کے سامنے آسمانی کتابوں کے دلائل ہوں۔ وہ اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے ہوئے قرآن مجید کی تصدیق کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو مردہ ضمیر ہونے کی وجہ سے حقائق کا انکار کرنے پر تل چکا ہو، اس کے ساتھ جہنم کے سوا کیا وعدہ کیا جاسکتا ہے؟ اے رسول (ﷺ) ! آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ جس میں شک کرنے کی ذرہ برابر گنجائش نہیں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ حقائق سننے اور جاننے کے باوجود ایمان نہیں لاتے۔ اس آیت کریمہ کے مفسرین نے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ اس آیت میں رسول مکرم (ﷺ) مخاطب ہیں۔ آپ کو نبوت سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوچکی تھی۔ پھر جبریل امین (علیہ السلام) نے آپ کے سامنے اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھ کر سنایا اور گواہی دی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ پر ویسی ہی کتاب نازل کی گئی ہے جیسی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی تھی۔ جو لوگوں کے لیے رہنما اور رحمت تھی۔ لہٰذا آپ (ﷺ) کو کسی قسم کا شک نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں مانے گی۔ اس طرح کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور باقی جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ دوسری جماعت کا خیال ہے :﴿اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ﴾ سے مراد وہ شخص ہے جسے فطری طور پر اس شعور کی بیداری حاصل ہو۔ یعنی اسے ﴿اَلَسَتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی﴾ (کیا میں تمہارا رب ہوں؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں آپ ہی ہمارے رب ہیں) کا وعدہ یاد ہو اور پھر اسے قرآن مجید کی صورت میں رسول (ﷺ) کا پیغام پہنچ جائے جو اللہ کی رحمت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ جیساکہ اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی کتاب تورات جو لوگوں کے لیے رحمت اور پیشوا تھی۔ پھر کچھ لوگ ایمان لاتے ہیں اور اکثرانکار کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔﴿فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِنْہُ﴾ کا خطاب مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر نبی اکرم (ﷺ) سے ہے جیساکہ اور مقامات پر بھی ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ لیکن حقیقتاً ان الفاظ سے مراد ” آپ (ﷺ) کی امت کے لوگ ہیں“۔ مسائل : 1۔ قرآن مجید کا تابع دار اور انکار کرنے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ 2۔ قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے کی گواہی تورات نے دی ہے۔ 3۔ قرآن کا انکار کرنے والوں کے لیے جہنم ہے۔ 4۔ کلام اللہ کے متعلق کسی قسم کے شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ 5۔ قرآن مجیدبرحق ہے۔ 6۔ لوگوں کی اکثریت قرآن مجید پر ایمان نہیں لاتی۔ تفسیر بالقرآن : لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی : 1۔ تیرے پروردگار کا کلام سچا ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لاتی۔ (ہود :17) 2۔ لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ اگرچہ آپ ان کے ایمان پر کو شاں ہوں۔ (یوسف :103) 3۔ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لاتی۔ (المومن :59) 4۔ بے شک اس میں نشانی اور عبرت ہے۔ لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (الشعراء :8)