إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ
سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ انھیں لوگوں کے لئے بخشش بھی ہے اور بہت بڑا بدلہ بھی (١)۔
فہم القرآن : ربط کلام : کافر اور ناشکرگزار کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے تابعدار اور قیامت پر یقین رکھنے والوں کا کردار۔ پہلی آیات میں ” الانسان“ کے حوالے سے قیامت کے منکر اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے والا کا ذکر ہوا۔ اب ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو اپنے رب پر سچا ایمان رکھتے ہوئے نیک اعمال اختیار کرتے ہیں۔ یہاں ایمان کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے فخروغرور کے مقابلے میں صبر کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا جامع معنی ہے کہ ” مصیبت کے وقت حوصلہ کرنا، خوشی اور کامیابی ملنے پر اپنے آپ پر قابو رکھنا“ دوسرے الفاظ میں صبر کا معنی ہے ” غم اور خوشی کے وقت شریعت کی مقرر کردہ حدود وقیود کا خیال رکھنا“ ایسے لوگوں سے بتقاضائے بشریت کوتاہی سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے ان کی کوتاہیوں کو معاف کرے گا اور اپنی رحمت سے اجر کبیر عنایت فرمائے گا۔ صبر و استقامت : صبر بے بسی اور بے کسی کا نام نہیں۔ صبر قوت برداشت‘ قوت مدافعت کو بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ دشمن کے مقابلے میں جرأت‘ بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ مسائل ومصائب کا سامنا کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ آخرت میں بغیرحساب و کتاب کے جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت ودستگیری حاصل ہوگی۔ ہر قسم کے مسائل اور مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے سچ اور حقیقت پر قائم رہنے کا نام صبر واستقامت ہے۔ اس کے بغیر کسی شخص کی کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مشکلات زندگی کا حصہ ہیں ان سے نکلنے کے لیے روحانی اور الہامی طریقے اختیار کرنے کے ساتھ مادی وسائل اپنانے کا حکم ہے مگر جب تک پوری دلجمعی اور صبر واستقلال کے ساتھ اسباب کو استعمال اور ان کے اثرات و نتائج کا انتظا رنہ کیا جائے اس وقت تک مشکلات سے نکلنا ناممکن ہے۔ شریعت نے صبر و استقامت کو مشکلات سے نجات پانے کا اولین درجہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ جب تک آدمی مشکلات سے چھٹکاراپانے کے لیے اسباب کو مستقل مزاجی اور حو صلے کے ساتھ اختیار نہیں کرے گا تو نہ صرف اس کی جسمانی اور روحانی تکلیف میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ اپنے جذبات اور عجلت پسندی کی وجہ سے دنیا وآخرت میں بہتر نتائج سے محروم رہے گا جو صبر و استقامت کے سبب اس کو حاصل ہونے والے تھے۔ اس لیے مشکلات اور آزمائش کے وقت صبر و استقامت سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ صبر واستقامت کی دعائیں : جب آدمی بیماری، پریشانی یا کسی مشکل اور غم میں مبتلا ہو تو اسے کثرت کے ساتھ یہ دعائیں پڑھنی چاہییں اللہ تعالیٰ اسے صبروحوصلہ دیتے ہوئے اس مصیبت سے نجات دے گا۔ ﴿رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًاوَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ﴾ [ الاعراف :166] ” اے اللہ ہمیں صبر عطا فرما اور مسلمانی کی حالت میں فوت کرنا۔“ ﴿رَبَّنَا أَفرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ﴾ [ البقرۃ:250] ” اے اللہ ہمیں صبر واستقامت نصیب فرماتے ہوئے دشمن پر غلبہ نصیب فرما۔“ مشکل میں صبر کرنے کا ثواب : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَّصَبٍ وَّلَا وَصَبٍ وَلَا ھَمِّ وَّلَا حُزْنٍ وَّلَا اَذًی وَّلَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوْکَۃِ یُشَاکُھَا اِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ خَطَایاہُ)[ رواہ البخاری : باب ماجاء فی کفارۃ المرض] ” حضرت ابوہریرہ اور ابوسعید (رض) نبی کریم (ﷺ) کا یہ فرمان بیان کرتے ہیں کوئی بھی مسلمان کسی طرح کی تھکاوٹ، درد، فکر، غم، تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہو یہاں تک کہ اس کو کانٹا بھی چبھے تو اس کو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔“ مسائل : 1۔ مصیبت کے وقت صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ 2۔ نیک اعمال کرنے والوں اور صابرلوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرکبیر کا وعدہ کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن : صبر کرنے والوں کا صلہ : 1۔ جو لوگ صبر اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ (ہود :11) 2۔ صبربڑے کاموں میں سے ہے۔ (الاحقاف :35) 3۔ صبر کرنے والوں کا انجام بہترین ہوتا ہے۔ (الحجرات :5) 4۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:153) 5۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون :111) 5۔ صبر کرنے والے بغیرحساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر :10)