وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَىٰ أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ ۗ أَلَا يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
اور اگر ہم ان سے عذاب کو گنی چنی مدت تک کے لئے پیچھے ڈال دیں تو یہ ضرور پکار اٹھیں گے کہ عذاب کو کون سی چیز روکے ہوئے ہے، سنو! جس دن وہ ان کے پاس آئے گا پھر ان سے ٹلنے والا نہیں پھر تو جس چیز کی ہنسی اڑا رہے تھے وہ انھیں گھیر لے گی (١)
فہم القرآن : ربط کلام : منکرین حق نہ صرف قرآن مجید کو جادو قرار دیتے اور قیامت کا انکار کرتے تھے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب کے بھی منکر تھے۔ جب انسان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان کمزور ہوجائے تو وہ نہ صرف قیامت کا انکار کرتا ہے بلکہ اپنے آپ کو پہنچنے والی تکلیف اور آزمائش کو اپنے اعمال کی شامت اور ان کے نتیجہ میں آنے والی گرفت کو من جانب اللہ قرار دینے کی بجائے اسے حالات کا ردّعمل سمجھتا ہے۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ جب سرور دو عالم (ﷺ) انہیں اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذاب سے متنبہ کرتے تو وہ اس کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہتے کہ جس عذاب کی آپ دھمکی دیتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے؟ کہ اب تک ہم پر نازل نہیں ہوا۔ ایک طرف آپ ہمیں ہمارے اعمال کے نتیجہ سے ڈراتے ہیں دوسری طرف وہ عذاب ہمیں دوردور تک آتا دکھائی نہیں دیتا۔ آخر اس عذاب کو کس چیز نے روک رکھا ہے؟ اس پر انہیں وارننگ دی جارہی ہے کہ جس عذاب کو مذاق کانشانہ بنائے ہوئے ہو جب وارد ہوگا تو نہ اس کے راستے میں رکاوٹ حائل ہوگی اور نہ ہی کوئی روکنے والا اسے روک سکے گا۔ بس اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کردار اور عقیدہ پر نظرثانی کرو اور اپنے خالق ومالک کے سامنے آہ وزاری کے ساتھ تائب ہوجاؤ۔ یہی تمہاری دنیا اور آخرت کے لیے بہتر ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت دیتا ہے تو اس میں اس کی یہ حکمت بھی کارفرما ہوتی ہے کہ ظالموں کو ظلم کرنے میں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْرٌ لِأَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِیْنٌ﴾[ آل عمران :178] ” کافر لوگ ہرگز یہ نہ سمجھ بیٹھیں ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں یہ ان کے حق میں بہتر ہے ہم انہیں صرف اس لیے ڈھیل دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ گناہ کرلیں اور انہیں رسوا کن عذاب ہوگا۔“ دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا : ﴿فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوْا بِمَا أُوتُوْا أَخَذْنَاہُمْ بَغْتَۃً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُوْنَ ﴾[ الانعام :44] ” پھر جب انہوں نے وہ نصیحت بھلا دی جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر خوشحالی کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جب وہ اس میں مگن ہوگئے تو ہم نے یک دم ہی انہیں پکڑ لیا تو وہ ہر چیز سے مایوس ہوگئے۔“ ﴿إِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ۔ إِنَّہُ ہُوَ یُبْدِئُ وَیُعِیْدُ﴾[ البروج : 12۔13] ” یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ وہی پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ لوٹائے گا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب مؤخر ہونے پر کفار انبیاء (علیہ السلام) کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ اور اس کے رسول سے مذاق کرنے والوں کا انجام : 1۔ وہ چیز ان کو آہی گھیرے گی جس کی بنا پر یہ مذاق کرتے تھے۔ (ہود :8) 2۔ جب وہ ہماری نشانیاں دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفت :14) 3۔ وہ تعجب کرتے ہیں اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفت :12) 4۔ جب ان کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گزرتے تھے تو مذاق کرتے تھے۔ (ہود :38) 5۔ اور کافرلوگوں نے رسولوں سے باطل دلائل کے ساتھ جھگڑا کیا تاکہ وہ حق کو نیچا دکھائیں میری آیات اور تنبیہات کا مذاق اڑائیں۔ (الکہف :56) 6۔ یہ جہنم ان کے کفر اختیار کرنے کا بدلاہے وہ میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ (الکہف :106)