وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں (١) وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے (٢) کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گیا رہویں پارے کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے ظاہر اور خفیہ حالات سے واقف ہے اور دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ یہاں ارشاد فرمایا کہ وہ انسان کے مستقل ٹھہراؤ اور عارضی قیام گاہوں کو بھی جانتا ہے۔ ﴿ دابۃ﴾ ہر جاندار کو کہا جاتا ہے لیکن یہاں خطاب انسانوں سے کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس نے ہی اس کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ رزق سے مراد صرف کھانے پینے والی چیزیں نہیں بلکہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ایک ذی روح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ہوا، پانی، خوراک اور رہن سہن کی ضروریات شامل ہیں۔ یہ سب چیزیں عطا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اپنا دسترخوان اتنا وسیع اور Mobile بنایا ہے کہ ہر کھانے والے کو اس کی خوراک مل رہی ہے گوشت کھانے والے درندے کو گوشت مل رہا ہے اور دانہ دنکا لینے والے کو دانہ دنکا صبح وشام میسر ہے۔ چند جمع کرنے والوں کے سوا باقی سب کے سب کھانے والے صبح وشام تازہ خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے اس کا رزق بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے البتہ حکم ہے کہ اللہ کا رزق تلاش کیا کرو۔ اس کے لیے محنت ومشقت کرنا لازم ہے لیکن رزق کی کمی وبیشی کا انحصار انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق محنت کی بنیاد پر دیا جاتا تو معذور اور لاچار بھوکے مرجاتے۔ جہاں تک رزق کی کمی و بیشی کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے مطابق ہے جس کے پیش نظر وہ لوگوں کا رزق بڑھاتا اور گھٹاتا رہتا ہے۔ اگر کہیں قحط سالی پیدا ہوجاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے طے شدہ اصول کے مطابق ہوتی ہے جس کا سبب بنیادی طور پر انسان ہی ہوا کرتا ہے۔ بے شک وہ قحط سالی پانی کی قلت اور بارش کی کمی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بھی انسان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔ وہ لوگوں کی مستقل قیام گاہوں اور عارضی رہائش کو جانتا ہے۔ کیونکہ لوگوں کو رزق پہنچانا اور ان کے اعمال اور ضروریات سے باخبر رہنا اس کی صفت کاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ہر لحاظ سے باخبر رہتا ہے بلکہ اس نے انسان اور دنیا کی ہر چیز کے بارے میں سب کچھ لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے۔ ﴿مستقرہا و مستودعہا ﴾بالترتیب ان کا معنی ہے ” مستقل قیام گاہ اور عارضی ٹھہراؤ“۔ مفسرین نے مستقرہا سے مراد بطن مادر اور مستودعہا کا معنی دنیا کی زندگی لیا ہے اور کچھ اہل علم نے مستودعھا کا معنٰی دنیا کی زندگی اور مستقرھا قبر کا قیام سمجھا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نہ صرف انسان کے ہر قول وفعل سے آگاہ ہوتا ہے بلکہ اس نے انسان کی زندگی کا پورا ریکارڈ اپنے ہاں محفوظ کر رکھا ہے۔ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (ﷺ) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہِ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب فی التوکل علی اللہ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں فرمایا رسول اللہ (ﷺ) نے اگر تم اللہ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو تم پرندوں کی طرح زرق دیے جاؤ وہ صبح خالی پیٹ ہوتے ہیں اور شام کو بھرے ہوئے پیٹ ہوتے ہیں۔“ رزق حلال کے لیے دعا : (اَللّٰہُمَّ اکْفِنِی بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِی بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ) [ رواہ الترمذی : باب اللھم اکفنی حلالک عن حرامک] ” اے اللہ ! مجھے حرام سے بچا اور اپنے حلال کے ساتھ میری کفالت فرما اور اپنے فضل کے ساتھ مجھے بے نیاز کردے۔“ مسائل : 1۔ ہر چیز کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے ٹھکانے کو جانتا ہے۔ 3۔ ہر چیز کتاب مبین میں درج ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ سب کو رزق دیتا ہے۔ 5۔ ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے : 1۔ ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ (ھود :6) 2۔ کتنے ہی چوپائے ہیں تم ان کے رزق کا بندوبست نہیں کرتے اللہ ہی انہیں رزق دیتا ہے۔ (العنکبوت :60) 3۔ بے شک اللہ بغیر حساب کے جس کو چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے۔ (آل عمران :37) 4۔ ہم تم سے رزق کے طالب نہیں بلکہ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں۔ (طٰہٰ :132) 5۔ بے شک اللہ ہی رزاق ہے اور بڑی قوت کا مالک ہے۔ (الذاریات :58)