وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ۖ وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اس کی طرف متوجہ رہو، وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (١) (زندگی) دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا۔ اور اگر تم لوگ جھٹلاتے رہے تو مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن (٢) کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
فہم القرآن : (آیت 3 سے 4 ) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت تب ہی قبول ہوسکتی ہے جب انسان اپنے گناہوں بالخصوص شرک سے توبہ کرے گا۔ قرآن مجید اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ انبیاء کرام نہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتے تھے بلکہ وہ اللہ کی عبادت کرنے کے ساتھ گناہوں سے معافی مانگنے اور شرک سے توبہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو بے شک وہ معاف کرنے والا ہے۔ استغفار کے بدلے وہ تم پر رحمت کی برکھا برسائے گا اور تمہیں مال اور بیٹے عنایت فرمائے گا۔ (نوح : 11۔12) استغفار کرنے کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر اپنا عذاب مسلط نہیں کرتا۔ ایک دفعہ مکہ کے سردار جمع ہو کر بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر اپنے لیے بدعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اگر یہ رسول سچا ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا۔ اس کے جواب میں یہ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس لیے تم پر عذاب نازل نہیں کررہا کہ تم میں اس کا رسول اور استغفار کرنے والے مسلمان موجود ہیں۔ (الانفال ،: 32۔33) یہاں توبہ و استغفار کے تین فائدے بتائے گئے ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کرنے والوں کو دنیا کے بہترین اسباب عنایت فرمائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ انسان کی موت تک اسے مہلت دے گا اور کسی ذلیل کردینے والی آزمائش میں مبتلا نہیں کرے گا۔ 3۔ توبہ و استغفار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزید نوازے گا۔ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی بندگی سے انکار اور اس کے حضور توبہ و استغفار نہ کریں گے تو دنیا میں ذلیل کردینے والا عذاب اور آخرت میں بڑے اور لا متناہی مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا ہوں گے۔ کیونکہ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور وہ لوگوں کو اپنے حضور پیش کرنے پر پوری طاقت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ ذرے ذرے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ عَبْدًا اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ فَاغْفِرْہُ فَقَالَ رَبُّہُ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَاْخُذُبِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَا شَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا قَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا اٰخَرَ فَاغْفِرْہُ لِیْ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ فَلْیَفْعَلْ مَا شَآءَ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّه ﴾ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا‘ کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اپنے رب سے عرض کرتا ہے کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں تو اے رب مجھے معاف فرما۔ اس کا رب فرشتوں سے کہتا ہے‘ کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے اور ان پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے؟ لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ کی توفیق ہوتی ہے وہ گناہ سے باز رہتا ہے‘ پھر اس سے گناہ ہوجاتا ہے اور پھر اپنے رب کو پکارتا ہے۔ میرے پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا ہے۔ میرے اللہ! مجھے معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے استفسار کرتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ کوئی اس کا مالک ہے جو گناہوں کو معاف بھی کرتا ہے اور ان پر پکڑتا بھی ہے؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا! اب وہ جو چاہے کرے۔“ (یعنی سابقہ گناہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔) “ توبہ استغفار کے چند وظائف : ﴿رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ﴾ [ المومنون :118] ” یارب معاف اور رحم فرما تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔“ (أَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبِ وَّأَتُوْبُ إِلَیْہِ) [ مشکوٰۃ‘ باب الاستغفار] ” میں اللہ سے ہر گناہ کی معافی مانگتا ہوں اور اسی کے حضور توبہ کرتا ہوں۔“ (اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ) [ مشکوٰۃ‘ باب السجود] ” اے اللہ مجھے معاف اور مجھ پہ رحم فرما۔“ (اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ) [ مشکوٰۃ‘ کتاب الصوم] ” اے اللہ آپ معاف کرنیوالے، معافی کو پسند کرتے ہیں اس لیے مجھے معاف فرما دیجیے۔“ یہاں قیامت کے دن کو یوم کبیر کہا گیا ہے جو اپنی طوالت کے اعتبار سے پچاس ہزارسال پر مشتمل ہوگا۔ (حم السجدۃ:15) اور سختی کے حوالے سے اس قدر سخت ہوگا کہ بچہ جنم دینے والی ماؤں کے حمل ساقط ہوجائیں گے اور لوگ اس دن کی سختیوں سے مدہوش اور بدحواس ہوں گے۔ دیکھنے والا یوں سمجھے گا جیسے کسی نشے کی وجہ سے سر گرداں پھر رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ یوم عظیم کی سختی اور تلخی کا نتیجہ ہوگا۔ (الحج :2) مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنی چاہیے۔ 2۔ ہر شخص کو اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ 3۔ استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ دنیوی فوائد بھی عطا فرماتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے نوازنے والا ہے۔ 5۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ 6۔ سب نے اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن : توبہ و استغفار کا حکم اور فوائد : 1۔ اپنے پروردگار سے توبہ کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ تمہیں خوشی و عیش دے گا۔ (ہود :3) 2۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ہود :52) 3۔ تم اس سے بخشش طلب کرو میرا رب تمہاری توبہ قبول کرے گا۔ (ہود :61) 4۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ تمہیں معاف کردے گا اور بارش، مال اور اولاد سے نوازے گا۔ (نوح : 10۔12) 5۔ اللہ سے بخشش طلب کرو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (المزمل :20) 6۔ جب تک لوگ بخشش طلب کرتے رہیں گے ہم انہیں عذاب نہیں دیں گے۔ (الانفال :33)