قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
آپ کہہ دیجئے (١) کہ اے لوگو! اگر تم میرے دین کی طرف سے شک میں ہو تو میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو (٢) لیکن ہاں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جان قبض کرتا ہے (٣) اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے رہوں۔
فہم القرآن : (آیت 104 سے 105) ربط کلام : ( آپ کھل کر اعلان کردیں کہ) ” اللہ“ کی مدد انبیاء (علیہ السلام) اور مومنوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ نبی معظم (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کو نصرت و حمایت کی خوشخبری دینے کے بعد حکم ہوا۔ کہ اے رسول (ﷺ) آپ سرعام اعلان فرمائیں کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں شک ہے اور تم کسی طرح بھی مطمئن ہونے کے لیے تیار نہیں ہو۔ تو یاد رکھو میں اللہ کے سوا تمہارے معبودان باطل کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں صرف اسی ایک اللہ کی عبادت کرتارہوں گا۔ جو تمہیں اور سب کو فوت کرنے والا ہے۔ کیونکہ میں ماننے والوں میں ہوں اس لیے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے آپ کو کلی طور پر اس دین کے تابع کروں جو ہر اعتبار سے کامل، اکمل اور ہر قسم کی کمی کمزوری سے مبرا ہے۔ میرا مشرکوں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ یہاں دین سے مراد توحید خالص اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ مشرکین مکہ نے جب نبی معظم (ﷺ) کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگالیا۔ اور وہ ہر اعتبار سے ناکام اور نامراد ٹھہرے تو انہوں نے اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ اے محمد! کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم اپنا موقف چھوڑنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ہماری کشمکش ختم ہوجائے۔ ( القلم :9) اس کے جواب میں یہ فرمان نازل ہوا کہ اے رسول (ﷺ) ! آپ مشرکین کی پرواہ کیے بغیر صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کی توحید کی دعوت دیتے رہیں۔ چنانچہ رسول اکرم (ﷺ) نے دشمنوں کی دشمنی اور مخالفوں کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر زندگی بھر اس کام کو جاری رکھا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے وہ وقت دکھایا کہ جب آپ اپنی زندگی کا آخری حج ادا کررہے تھے۔ تو ایک لاکھ سے زائد کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ” حضرت واقد بن محمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے سنا وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ، رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم مہینہ کون سا ہے۔ صحابہ نے کہا یہ مہینہ۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم شہر کون سا ہے صحابہ نے عرض کیا ہمارا شہر۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم دن کون سا ہے صحابہ نے عرض کیا آج کا دن آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت کو حرام قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ جس طرح کہ اس دن کی حرمت ہے تمہارے اس شہر اور مہینے کی کیا میں نے پیغام پہنچا دیا، آپ نے تین بار یہ کلمات دھرائے اور تمام نے کہا کیوں نہیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا افسوس ہو تم پریا ویل ہو میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے پھرو۔“ (رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب ظھر المو من حمی الا فی حداو حق) مسائل : 1۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی موت پر اختیار رکھتا ہے۔ 3۔ اپنے آپ کو دین کے لیے خالص کرلینا چاہیے۔ 4۔ مشرکین کا ساتھی نہیں بننا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنی چاہیے : 1۔ آپ کو حکم ہے کہ آپ فرما دیں کہ میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ (یونس :104) 2۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد :36) 3۔ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود :2) 4۔ اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ (البقرۃ:21) 5۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف :40) 6۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے شریک نہ بناؤ (النساء :36) 7۔ نوح، ہود، صالح، اور شعیب نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا۔ (ہود : 50۔ 61۔84) 8۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (بنی اسرائیل :23)