سورة یونس - آیت 98

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

چنا نچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے (١) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لئے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : قرآن کے منکرو! اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے اس طرح فائدہ اٹھانا چاہیے جس طرح قوم یونس (علیہ السلام) نے مہلت سے فائدہ اٹھا کر سچی توبہ کی اور اپنے سروں پر منڈلاتے ہوئے عذاب سے بچ گئے تھے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) عراق کی سرزمین نینوا کے علاقہ میں 800قبل مسیح مبعوث کیے گئے۔ اس زمانے میں نینوا دنیا کے ترقی یافتہ بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ قرآن مجید نے اس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد بتلائی ہے۔ ( الصافات :147) شہر اور علاقے کے لوگ اشوری قوم سے تعلق رکھتے تھے جو بت پرستی میں مبتلا تھی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) انہیں ایک مدت تک وعظ و نصیحت کرتے رہے مگر قوم نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو مشرک اقوام کا وطیرہ رہا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے انہیں بار بار اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔ لیکن وہ لوگ تائب ہونے کی بجائے بگاڑ میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ جس پر یونس (علیہ السلام) نے انہیں آخری بار انتباہ کیا کہ اگر تم اسی راستے پر چلتے رہے تو فلاں دن تمہیں اللہ تعالیٰ کا عذاب دبوچ لے گا۔ قوم نے آخری وارننگ کو بھی استہزا کا نشانہ بنایا۔ جس پر حضرت یونس (علیہ السلام) دلبرداشتہ اور خفا ہو کر ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم نہیں پہنچا تھا۔ کیونکہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ہجرت نہیں کرسکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس فعل پر ان کی گرفت فرمائی جس کے بارے میں فرمایا۔ جب وہ غصہ کے عالم میں شہر چھوڑ کر چلا گیا اسے خیال تھا (یعنی اسے خیال نہ آیا) کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ (الابنیاء :87) قوم یونس پر نظر کرم : حضرت یونس (علیہ السلام) کے شہر چھوڑنے کے بعد ان کی پیشگوئی کے مطابق قوم پر عذاب منڈلانے لگا۔ جس پر قوم کو احساس ہوا کہ حضرت یونس کا فرمان سچ تھا۔ اللہ کا پیغمبر ہماری گستاخیوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے ناراض ہو کر چلا گیا ہے۔ ظاہر ہے انہوں نے حضرت کو تلاش کیا ہوگا لیکن حضرت زمین کی بجائے مچھلی کے پیٹ میں جاچکے تھے۔ قوم نے دن کے وقت دن کے وقت کالے بادل، کڑکتی ہوئی بجلیاں اور خوفناک گھٹا ٹوپ اندھیرا دیکھا تو یقین ہوگیا کہ یہ بارش برسانے والے بادل نہیں۔ یہ تو حضرت یونس (علیہ السلام) کی بددعا کا نتیجہ اور ہمیں ہلاک کردینے والا بادل ہے۔ اس خوفناک صورت حال کو دیکھ کر انہوں نے عورتوں، بچوں اور مردوں کو کھلے میدان میں الگ الگ کرکے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگو۔ تمام کے تمام لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور پوری درماندگی اور عاجزی کے ساتھ زاروقطار روتے ہوئے معافی طلب کی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا، جس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا عذاب ٹل جائے مگر یونس (علیہ السلام) کی قوم کے سوا۔ جس کے دو سبب معلوم ہوتے ہیں : 1۔ عذاب کا قطعی وقت آنے سے پہلے کوئی فرد یا قوم سچی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھیجے ہوئے عذاب کو ٹال دیتا ہے۔ 2۔ قوم یونس پر ابھی تک حجت تمام نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ کہ جب تک کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پوری طرح حجت قائم نہ ہو۔ اس وقت تک انہیں تہس نہس نہیں کیا جاتا لہٰذا قوم یونس کو نہ صرف معاف کردیا۔ بلکہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دے کر اسی قوم کی طرف دوبارہ بھیجا گیا۔ سو وہ لوگ ایمان لائے جس وجہ سے انہیں زندگی میں مزید فائدہ اٹھانے کا موقعہ دیا گیا۔ (الصٰفٰت : 147۔148) اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کے ذلت ناک عذاب سے بچا لیا اور مزید مہلت عطا فرمائی۔ عذاب نازل ہونے کے بعد ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا : ﴿فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ إِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُوْنَ﴾[ المومن :85] ” پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انہیں فائدہ دیتا، جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔“ توبہ واستغفار کے ثمرات : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () مَنْ لَزِمَ الاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللَّہُ لَہُ مِنْ کُلِّ ہَمٍّ فَرَجًا وَمِنْ کُلِّ ضیقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ) [ رواہ ابوداؤد : باب الاستغفار] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس نے استغفار کو لازم پکڑ ا، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات عطا فرما دیتا ہے اور ہر تنگی سے نکلنے کی جگہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے خیال بھی نہ ہو۔“ مسائل : 1۔ اللہ کے حضور سچی توبہ کرنے سے آیا ہوا عذاب ٹل جاتا ہے۔ 2۔ ایمان والے اللہ کی عطا کردہ مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : توبہ استغفار کے فوائد : 1۔ حضرت یونس کی قوم کے سوا کسی قوم کو عذاب کے وقت ایمان لانے کا فائدہ نہ ہوا۔ (یونس :98) 2۔ اللہ سے بخشش طلب کیجیے یقیناً وہ معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء :106) 3۔ اگر تم استغفار کرو تو اللہ تمہیں اس کا بہتر صلہ دے گا۔ (ہود :3) 4۔ تم اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرما دے گا۔ (ہود :52) 5۔ اللہ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو میرا رب رحم کرنے اور شفقت فرمانے والا ہے۔ (ہود :90) 6۔ اللہ سے بخشش طلب کرو وہ معاف کردے گا اور بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرمائے گا۔ (نوح : 10۔12) 7۔ اللہ سے استغفار کرو یقیناً وہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (المزمل :20) 8۔ جب تک لوگ اللہ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔ (الانفال :33) 9۔ اپنے رب کی تعریف وتسبیح بیان کرو اور اس سے مغفرت طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا ہے۔ (النصر :3)