وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے پاس وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنے ان لوگوں کے لئے مصر میں گھر برقرار رکھو اور تم سب اپنے انہی گھروں کو نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے لو (١) اور نماز کے پابند رہو اور آپ مسلمانوں کو بشارت دے دیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : جورو استبداد کے دور میں موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو خصوصی ہدایات۔ قرآن مجید حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں پر ہونے والے جو رو استبدد کا اس طرح منظر پیش کرتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے مواحد ساتھیوں پر وہ وقت بھی آیا جب ان کے لیے عبادت گاہوں کے دروازے بند کردیئے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے لیے نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا۔ اس کر بناک صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو حکم دیں کہ اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنا کر نماز قائم رکھیں۔ دونوں بھائیوں کو یہ بھی ارشاد ہوا کہ ایمانداروں کو یہ خوشخبری سنائیں کہ عنقریب ان کی مشکلات کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ یہاں بیوت کا لفظ دو دفعہ استعمال ہوا ہے جو بیت کی جمع ہے۔ جس کا معنی ہے گھر مفسرین نے یہ الفاظ دو دفعہ آنے کی وجہ سے دو مفہوم اخذ فرمائے ہیں۔ پہلی مرتبہ بیوت سے مراد ہے کہ کچھ گھر خفیہ طور پر منتخب کرلیے جائیں تاکہ وہاں حتی الامکان اجتماعی طور پر نماز ادا کی جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اپنے اپنے گھروں میں قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کی جائے اس فرمان سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ مسلمانوں کو مشکل ترین حالات میں بھی نماز باجماعت ادا کرنا چاہیے اگر نماز اور جماعت کے تقاضے سمجھ کر پورے کیے جائیں تو اس سے بہتر انفرادی اور اجتماعی تربیت اور باہم مربوط اور منظم ہونے کا کوئی اور جامع موثر ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس سے پہلے مومنوں نے اللہ تعالیٰ سے استدعا کی تھی کہ اے ہمارے رب ہمیں کفار کے مظالم سے نجات عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ اپنے ساتھیوں کو مستقبل قریب میں فرعون سے نجات پانے کی خوشخبری سنائیے۔ جہاں تک نماز باجماعت کا تعلق ہے۔ ہماری شریعت میں اس کا اس قدر اہتمام اور التزام کیا گیا ہے کہ حالت جنگ میں بھی نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نماز باجماعت کی اہمیت : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ اَنْ اٰمُرَ بِحَطَبٍ لَیُحْطَبَ ثُمَّ اٰمُرَبِالصَّلٰوۃِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ اٰمُرَ رَجُلًا فیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ اُخَالِفَ اِلٰی رِجَالٍ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَّا یَشْھَدُوْنَ الصَّلٰوۃَ فَاُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ یَعْلَمُ اَحَدُھُمْ اَنَّہُ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا اَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ)[ رواہ البخاری : کتاب الاذان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں حکم دوں کہ لکڑیاں جمع کی جائیں پھر اذان کا حکم دوں کسی اور کو لوگوں کی جماعت کروانے کی ذمہ داری سونپوں پھر میں لوگوں کا محاسبہ کروں۔ دوسرے مقام پر آپ (ﷺ) کا یہ ارشاد ہے کہ جو لوگ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے میں ان کے گھروں کو جلا کرراکھ کا ڈھیر بنادوں۔ اللہ کی قسم! اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ انہیں عشاء کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر موٹی ہڈی یا دو پائے مل جائیں گے تو وہ عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں۔“ حضرت عبداللہ بن مسعودنے فرمایا لوگ اس وقت ملت ابراہیم پر رہیں گے جب تک نماز باجماعت ادا کریں گے۔ (ابو داؤد : کتاب الصلوۃ) مسائل : 1۔ دشمن کے خوف سے گھر میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ 2۔ نماز ہر حالت میں جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے۔ 3۔ مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن : نماز کے فوائد : 1۔ وہ لوگ جو کتاب اللہ پر کار بند رہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجرکو ضائع نہیں کریں گے۔ (الاعراف :170) 2۔ اگر لوگ توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ (التوبہ :5) 3۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت :45) 4۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی ان پر کسی قسم کا خوف نہ ہوگا۔ (البقرۃ :277) 5۔ اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:153) 6۔ نمازوں کی حفاظت کرنے والے جنت کے وارث ہیں۔ (المومنون : 9۔10)