سورة البقرة - آیت 6

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔ (١)

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی دوسری قسم جنہوں نے حق کا انکار کیا ان کے مزاج اور انجام کا بیان۔ لغت میں کفر کا معنٰی ہے کسی شے کو چھپانا۔ جو شخص نعمت کو چھپائے اور اس کا شکرادا نہ کرے اس کے فعل کو کفر اور کفران نعمت کہتے ہیں۔ سب سے بڑا کفر اللہ کی وحدانیت اور شریعت، نبوت کا انکار ہے۔ قرآن مجید میں کفر کا لفظ کفران نعمت اور کفر باللہ دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (اَلْکُفْرُ عَدَمُ تَصْدِیْقِ الرَّسُوْلِ فِیْمَا عُلِمَ بالضَّرُوْرَۃِ مَجِیْءُہٗ بِہٖ) (تفسیر رازی : ص 306، ج1) ” کفر کے معنٰی یہ ہیں کہ رسول اور پیغمبر کی اس بات میں تصدیق نہ کرنا جس کا بدیہی اور قطعی طور پر دین سے ہونا معلوم ہوچکا ہے۔“ حقائق کا مسلسل انکار اور ہٹ دھرمی پر قائم رہنے والوں کی یہ حالت ہوچکی ہوتی ہے کہ ان کے لیے سمجھانا اور نہ سمجھانا یکساں ہوجاتا ہے۔ ان آیات میں ایک طرف نبی کریم {ﷺ}کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا کام ” اللہ“ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں کو سمجھانا ہے۔ اگر یہ لوگ حق کا مسلسل انکار کئے جا رہے ہیں تو آپ کو دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور نہ ہی ایسے ہٹ دھرم لوگوں پر مزید صلاحیتوں کو صرف کرنا چاہیے کیونکہ ان کے سچ اور حق کو قبول کرنے والے اعضاء بے کار کردیے گئے ہیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہی ان کی قوت فہم و سماعت ختم کردی ہے اور ان کی بصارت پر پردے ڈال دیے ہیں تو ان کا کیا قصورہے ؟ در حقیقت یہ لوگ آیات کے سیاق و سباق سے ہٹ کر یہ معنٰی نکال کر اپنی کم فہمی یا منفی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ ان آیات کا مفہوم سمجھنے کے لیے ایک مشفق و مہربان حکیم کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جو کسی مریض کو مرض کے نقصانات بتلا اور دوائی کے فائدے سمجھا کر بار بار دوائی کھلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن مریض نہ صرف اپنا منہ بند کرلیتا ہے بلکہ ہر قسم کی بد پرہیزی اور حکیم کے ساتھ بد تمیزی کرنے میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ مریض کی بد تمیزی اور ہٹ دھرمی دیکھ کر اگر حکیم یہ کہہ دے کہ مریض اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے لہٰذا اسے مرنے ہی دینا چاہیے تو اس میں حکیم کا قصور سمجھا جائے گا یا مریض کا؟