سورة یونس - آیت 9

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کا رب ان کو ان کے ایمان کے سبب ان کے مقصد تک پہنچا دے گا (١) نعمت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 9 سے 10) ربط کلام : جہنمیوں کی چیخ وپکار اور ان کا انجام بیان کرنے کے بعد جنتیوں کا صلہ اور جنت میں ان کے اخلاق اور کلام کا ذکر ہوتا ہے۔ جنتی جنت میں اپنے تصوّرات سے کروڑ ہا گنا بیش بہا نعمتیں پا کر پکار اٹھیں گے کہ اے اللہ تو پاک ہے۔ ہم تو اس قابل نہ تھے کہ یہ مقام اور انعام پاتے۔ ہماری حقیر سی محنت کے بدلے جو کچھ آپ نے ہمیں عطا فرمایا ہے اس کا ہم تصوربھی نہیں کرسکتے تھے۔ بعض اہل علم نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنتی کسی چیز کی خواہش کریں گے تو مانگنے کی بجائے لفظ سبحان استعمال کریں گے اور ان کی خواہش کے مطابق وہ چیز ان کی خدمت میں پیش کردی جائے گی۔ (واللہ اعلم) جنتی جب آپس میں ملاقات کریں گے تو ایک دوسرے کو سلام اور مبارک پیش کریں گے۔ اکل وشرب اور مجلس برخاست کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی حمدو ستائش کے ترانے گائیں گے گویا کہ ہر طرف اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی فضا ہوگی۔ یہاں تک کہ دنیا میں آپس میں سلام کہنے کے آداب ہیں۔ نبی اکرم (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو حکم دیا کہ دیکھو وہ ملائکہ کی جماعت بیٹھی ہوئی ہے ان کے پاس جاؤ، وہ تمہیں جو کلمات کہیں گے وہ تیری اولاد کے آپس میں ملنے کے آداب ہوں گے۔ جب آدم (علیہ السلام) ملائکہ کے پاس گئے تو انہوں نے ان کو سلام علیکم کہا۔ ملائکہ نے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کے الفاظ کہے۔ اسی وقت سے ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت یہ کلمات اور آداب مقرر کردئیے گئے ہیں، جس بنا پر جنتی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلَیٰ صُوْرَتِہٖ طُوْلُہٗ سِتُّوْنَ ذِرَاعاً فَلَمَّا خَلَقَہٗ قَالَ اذْھَبْ فَسَلِّمْ عَلٰی اُوْلٰٓئِکَ النَّفَرِ وَھُمْ نَفَرٌ مِّنَ الْمَلآ ئِکَۃِ جُلُوْسٌ فَاسْتَمِعْ مَایُحَیُّوْنَکَ فَاِنَّھاَ تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ ذُرِّیَّتِکَ فَذَھَبَ فَقَالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ فَقَالُوْا اَلسَّلَاَمُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ قَالَ: فَزَادُوْہُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ قَالَ فَکُلُّ مَنْ یَّدْخُلُ الجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ اٰدَمَ وَطُوْلُہٗ سِتُّوْنَ ذِرَاعاً فَلَمْ یَزَلِ الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدَہٗ حَتَّی اَلْآنَ)[ رواہ البخاری : باب بدء السلام] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنی صورت پر تخلیق فرمایا۔ ان کا قد ساٹھ (60) ہاتھ لمبا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ ان کی تخلیق سے فارغ ہوا تو حکم فرمایا : آدم اس جماعت کے پاس جاکر سلام کہو۔ وہ فرشتوں کی مجلس ہے۔ جو وہ جواب دیں اسے سنو، وہی جواب تیرا اور تیری اولاد کا ہوگا۔ جب حضرت آدم نے جاکرالسلام علیکم کہا تو انہوں نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ سے جواب دیا۔ نبی محترم (ﷺ) فرماتے ہیں کہ فرشتوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا۔ آپ فرماتے ہیں : جنت میں داخل ہونے والا ہر شخص آدم (علیہ السلام) کی شکل وصورت پر ہوگا اور ہر جنتی کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا ہوگا۔ لیکن حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد انسانی قد میں مسلسل کمی ہوتی رہی یہاں تک کہ انسان کا قد اتنا رہ گیا۔“ اس گھڑی سے لے کرملاقات کا یہی طریقہ انسان کے لیے پسند کیا گیا۔ اس لیے ہمیں ادھر ادھر کے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے فطری اور طبعی طریقے کو اختیار کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس میں اس قدرجامعیت ہے کہ ملنے والے ایک دوسرے کیلئے ہر لحاظ سے خیرسگالی کے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی مذہب اور سوسائٹی میں ملاقات کے وقت اسقدر سلامتی کے جامع الفاظ نہیں پائے جاتے۔ ان کے انداز میں وقتی اور جزوی خیرخواہی کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسے :Good Morning ،Goodevening، صباح الخیر، شب الخیروغیرہ۔ (عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ قُلْتُ لأَنَسٍ أَکَانَتِ الْمُصَافَحَۃُ فِی أَصْحَاب النَّبِیِّ () قَالَ نَعَمْ ) [ رواہ البخاری : باب المصافحۃ] ” حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ کیا آپ کے صحابہ (رض) آپس میں مصافحہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ہاں۔“ ( اِذَا الْتَقٰی اَلْمُسْلِمَانِ فَتَصَافَحَا وَحَمِدَا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَاہُ غُفِرَلَھُمَا) [ رواہ ابو داؤد : باب المصافحۃ و المعانقۃ] ” جب دو مسلمانوں کی باہم ملاقات ہو اور وہ مصافحہ کریں اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اپنے لیے مغفرت طلب کریں تو ان کی مغفرت ہو ہی جائے گی۔“ کچھ عرصہ اور مدت کے بعد ملنے پر بغل گیر ہونا اسلامی معا شرت کا حصہ قرارپایا۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) اپنا واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی (ﷺ) نے مجھے اپنے ہاں آنے کا پیغام بھیجا۔ میں اس وقت گھر میں موجود نہیں تھا بعد ازاں میں آپ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مصافحہ کرتے ہوئے میرے ساتھ بغلگیر ہوئے : ( فَاَتَیْتُہٗ وَھُوَعَلَی سَرِیْرٍ فَالْتَزَمَنِیْ فَکَانَتْ تِلْکَ اَجْوَدَ وَالْجُوْدَ) [ رواہ ابو داؤد : باب المصافحۃ و المعانقۃ] ” آپ (ﷺ) نے مجھ سے معانقہ فرمایا اور آپ کا یہ اندازنہایت ہی شفقت سے لبریز تھا۔“ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) أَنَّ رَجُلاً جَاءَ إِلَی النَّبِیِّ () فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ قَال النَّبِیُّ () عَشْرٌ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ فَقَال النَّبِیُّ () عِشْرُونَ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ فَقَال النَّبِیُّ () ثَلاَثُونَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الاستئذان، باب ماذکر فی فضل السلام] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (ﷺ) کے پاس آیا اس نے کہا السلام علیکم، آپ نے فرمایا اس کے لیے دس نیکیاں ہیں، پھر ایک اور آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے فرمایا بیس نیکیاں ہیں پھر ایک اور آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا تیس نیکیاں ہیں۔“ مسائل : 1۔ ایمان دار عمل صالح کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ رہنمائی کرتا ہے۔ 2۔ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ جنت النعیم عطا فرمائے گا۔ 3۔ جنتی جنت میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے۔ 4۔ جنت میں مومن باہم ملاقات کے وقت اول و آخر اللہ کی تعریف کریں گے۔ تفسیر بالقرآن : جنتیوں کا جنت میں ایک دوسرے سے ملاقات کا طریقہ : 1۔ جنتی جنت میں باہم ملاقات کے وقت اللہ کی تسبیح بیان کریں گے اور سلام کہیں گے۔ (یونس :10) 2۔ جنتیوں کا ایک دوسرے کو تحفہ سلام ہوگا۔ (الاحزاب :44) 3۔ جنتیوں کو بالاخانے ملیں گے اور وہ آپس میں ملتے وقت دعا و سلام کریں گے۔ (الفرقان :75)