إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے، اللہ نے سچا وعدہ کر رکھا ہے، بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی پیدا کرے گا تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے انصاف کے ساتھ جزا دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے (١)۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ ہی نے ساری کائنات اور انسان کو پیدا کیا وہی اس کائنات کو ملیا میٹ کرکے نئی صورت میں پیدا کرے گا۔ ہر انسان کو اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ ہر دور میں بے شمار ایسے لوگ رہے ہیں اور ہوں گے۔ جن کا یہ نظریہ ہے کہ کائنات کا نظام اسی طرح ہی چلتا رہتا ہے۔ انسان بھی مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے۔ ہندوؤں اور کچھ لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ کائنات کا نظام اس طرح چلتا رہے گا۔ مگر انسان جب مرجاتا ہے تو اس کی روح دنیا میں کسی دوسرے روپ میں پلٹ آتی ہے۔ جسے آواگون کا عقیدہ کہا جاتا ہے۔ آخرت کے منکرین میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ کائنات اور انسان بالآخر ختم ہوجائیں گے اور انسان کو دنیا میں ہی مکافات عمل کے اصول کے تحت جزا اور سزا مل جاتی ہے۔ اسی طرح یہ لوگ موت کے بعد زندہ ہونا اور اللہ کے حضور پیش ہونے کے عقیدہ کا انکار کرتے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید اور تمام آسمانی کتابیں اور عقل سلیم اس بات پر متفق ہیں کہ ایک دن ضرور ایسا آئے گا اور اسے آنا چاہیے کہ جب برے کو اس کی برائی کے برابر اور نیک کو اس کی نیکی کا پورا پورا اجر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں کتنے قاتل ہیں جنہیں عدالت ایک ہی دفعہ پھانسی دے سکتی ہے اور دوسرے مقتولوں کا بدلہ اور مظلوموں کو حق نہیں دلوا سکتی۔ اسی طرح انبیاء (علیہ السلام)، صحابہ کرام (رض) اور مصلحین کس قدر محنت کرتے اور تکلیفیں اٹھاتے رہے۔ جن کا پورا اجر دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ اس بنا پر آخرت کی حاضری اور اپنے اپنے اعمال کی جوابدہی کا عقیدہ رکھنا فرض ہے۔ یہی عقیدہ انسان میں نیکی کا شوق اور برائی کا خوف پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے ایمانیات میں بعثت بعد الموت کا تیسرا نمبر اور عقیدہ توحید کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ جو شخص آخرت کی حاضری اور حساب و کتاب کو نہیں مانتا۔ حقیقتاً وہ اللہ تعالیٰ کی دائمی خدائی اور اس کے جزا اور سزا کے نظام کا انکار کرتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے قیامت برپا کرنا اللہ کا سچا وعدہ ہے کہ ہر کسی نے ضرور اس کے حضور پیش ہونا ہے۔ جہاں تک بعض لوگوں کے بوسیدہ خیالات کا تعلق ہے کہ انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے۔ دوبارہ کس طرح انسان بنے گا اور پیدا ہوگا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس اللہ نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا۔ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے آسان ہے یا مشکل؟ اور پھر سوچو کیا آدم کو مٹی سے نہیں پیدا کیا تھا۔ اللہ تمہارے باپ آدم کو پیدا کرسکتا ہے تو اس کی اولاد کو پیدا نہیں کرسکتا؟ وہ تمہیں پیدا ہی نہیں کرے گا بلکہ اپنی عدالت میں پیش کرے گا۔ جہاں نیکوں کو ان کی نیکی کی جزا دے گا اور منکروں کو جہنم میں کھولتا ہوا پانی پلانے کے ساتھ انہیں اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ سوچ لو ! اللہ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کرنا بہتر ہے یا اقرار۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ سب نے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پہلی بار پیدا فرمایا اور وہی دوبارہ پیدا فرمائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ایمان دار اور نیکی کرنے والے کو صلہ عطا فرمائے گا۔ 5۔ کفار کو جہنم کے کھولتے ہوئے پانی کے ساتھ اذیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دلائل : 1۔ قیامت قریب ہے۔ (الانبیاء :1) 2۔ قیامت کی ہولناکیاں بڑی سخت ہوں گی۔ (الحج :1) 3۔ قیامت قریب آگئی اور اس کے آنے کو اللہ کے سوا کوئی نہیں روک سکتا۔ (النجم : 57۔58) 4۔ قیامت واقع ہوگی اس کے واقع ہونے کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ (الواقعۃ :1۔ 2) 5۔ اللہ مخلوق کو دوبارہ لوٹائے گا تاکہ نیک و بد کو جزاو سزا مل سکے۔ (یونس :4) 6۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی اسے اجر ملے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی اسے اس کی سزا ملے گی۔ (الزلزال : 7۔8)