سورة یونس - آیت 3

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بلا شبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کردیا پھر عرش قائم ہوا (١) وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے (٢) اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں (٣) ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو (٤) کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : انبیاء کرام (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرنے کی سب سے بڑی وجہ عقیدہ توحید تھا اس لیے نبی کی بشریت کا ذکر کرنے کے بعد توحید کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ اے لوگو! تم نبی کے انسان ہونے پر تعجب کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ معمولی بات ہے کہ کسی شخص کو اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرمائے۔ اس کی ذات اتنی عظیم ہے کہ اس نے زمین و آسمان صرف چھ دن میں پیدا فرمائے اور پھر ذات کبریا عرش عظیم پر متمکن ہوئی جس طرح اس کی شان ہے۔ البتہ ہمارے لیے یہ سوچنا عظیم تر گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں وقت کس حالت میں ہوگا ایسی سوچ آنے پر اعوذ باللہ۔۔ پڑھنا چاہیے جہاں تک زمین و آسمان پیدا کرنے کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بغیر کسی Sample کے چھ دن میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو وہ ایک لمحہ میں بھی زمین و آسمان پیدا کرسکتے تھے۔ لیکن اس میں یہ حکمت ہے کہ ہر کام کو مناسب وقت دینا فطری امر ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ ہر چیز یا کام اپنے فطرتی تقاضوں کے مطابق کما حقہ سر انجام پائے۔ وہی زمین و آسمان اور پوری کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے۔ زمین و آسمانوں کی پیدائش اور کائنات کا نظام سنبھالنے میں اس کا کوئی ساجھی، شریک اور مشیر نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا اور نہ اس نے کسی کو ذرہ برابر اختیار دے رکھا ہے۔ جب کائنات کی تخلیق اور نظام چلانے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک، معاون اور مشیر نہیں تو اس کے سامنے اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے کی جرأت کیسے کرسکتا ہے؟ لوگو اللہ ہی تمہارا رب ہے لہٰذا صرف اور صرف اسی ایک کی عبادت کیا کرو۔ اتنے بڑے حقائق اور ناقابل تردید دلائل کی موجودگی میں کیا تم نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو؟ نصیحت سے مراد یہاں توحید کا عقیدہ اور خالصتاً اللہ کی عبادت کرنا ہے جو شخص اس کو نہیں مانتا وہ ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا۔ اس آیت مبارکہ میں تخلیقِ کائنات کا ثبوت دینے کے بعد اس بات کی پرزور تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی سفارش کا محتاج اور اسے ماننے پر مجبور نہیں ہیجبکہ مشرک کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی ریاضت و عبادت سے خوش ہو کر انہیں کچھ اختیار دے رکھے ہیں جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی سفارش مسترد نہیں کرتا۔ یہ باطل عقیدہ انسان کو اللہ سے بے خوف، بدعمل اور اپنے رب سے دور کردیتا ہے جس سے معاشرتی، معاشی اور دینی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے ہر نبی نے اس عقیدہ کی تردید کی۔ (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ قَالَ قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ السُّلَمِیُّ کُنْتُ وَأَنَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَظُنُّ أَنَّ النَّاسَ عَلَی ضَلاَلَۃٍ وَأَنَّہُمْ لَیْسُوْا عَلٰی شَیْءٍ وَہُمْ یَعْبُدُوْنَ الأَوْثَانَ فَسَمِعْتُ بِرَجُلٍ بِمَکَّۃَ یُخْبِرُ أَخْبَارًا فَقَعَدْتُ عَلٰی رَاحِلَتِی فَقَدِمْتُ عَلَیْہِ فَإِذَا رَسُوْلُ اللَّہِ () مُسْتَخْفِیًا جُرَءَ آءُ عَلَیْہِ قَوْمُہٗ فَتَلَطَّفْتُ حَتّٰی دَخَلْتُ عَلَیْہِ بِمَکَّۃَ فَقُلْتُ لَہٗ مَآ أَنْتَ قَالَ أَنَا نَبِیٌّ فَقُلْتُ وَمَا نَبِیٌّ قَالَ أَرْسَلَنِی اللَّہُ فَقُلْتُ وَبِأَیِّ شَیْءٍ أَرْسَلَکَ قَالَ أَرْسَلَنِیْ بِصِلَۃِ الأَرْحَامِ وَکَسْرِ الأَوْثَانِ وَأَنْ یُوَحَّدَ اللَّہُ لاَ یُشْرَکُ بِہِ شَیْءٌ قُلْتُ لَہٗ فَمَنْ مَّعَکَ عَلٰی ہَذَا قَالَ حُرٌّ وَعَبْدٌ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب اسلام عمرو بن عبسۃ] ” حضرت ابو امامۃ کہتے ہیں کہ عمرو بن عبسہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں جاہلیت میں لوگوں کو گمراہی پر تصور کیا کرتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ کسی مذہب پر بھی نہیں ہیں کیونکہ وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ میں نے سنا کہ ایک آدمی مکہ میں ہے جن کے متعلق خبریں مشہورتھیں۔ میں سواری پر بیٹھا اور آپ کے پاس آیا اور رسول اللہ (ﷺ) اپنی قوم کے سرپھروں سے چھپ کر رہتے تھے۔ میں نے احتیاط برتی حتی کہ مکہ میں آپ کے پاس حاضر ہوا۔ میں نے کہا آپ کون ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا۔ میں نبی ہوں، میں نے کہا نبی کون ہوتا ہے آپ نے فرمایا۔ اللہ نے مجھے اپنے پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ میں نے کہا کس چیز کے ساتھ آپ نے فرمایا صلہ رحمی اور بتوں کو توڑنے کے لیے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ایک جانا جائے اور اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرایا جائے میں نے کہا آپ کے ساتھ کون ہے؟ آپ نے فرمایا آزاد اور غلام۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ () قَالَ قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ وَقَالَ یَدُ اللَّہِ مَلأَ لاَ تَغِیْضُہَا نَفَقَۃٌ، سَحَّاء اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَقَالَ أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَآءَ وَالأَرْضَ فَإِنَّہٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِیْ یَدِہِ، وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ، وَبِیَدِہِ الْمِیْزَانُ یَخْفِضُ وَیَرْفَعُ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ تعالی﴿ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاء ﴾ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں انسان خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ اس میں سے رات دن خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی، آپ نے فرمایا کیا خیال ہے تمہارا کس قدر اللہ نے خرچ کیا ہوگا ؟ جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین بنائے ہیں یقیناً اس میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ترازو ہے وہ اسے اوپر کرتا اور نیچے کرتا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں و زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں کرسکے گا۔ 5۔ ایک اللہ کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : سفارش کے دلائل : 1۔ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کا حقدار نہ ہوگا۔ (یونس :3) 2۔ اللہ کی اجازت سے سفارش ہو سکے گی۔ (البقرۃ:255) 3۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمٰن اجازت دے گا۔ (مریم :87) 4۔ شفاعت اسی کے کام آئے گی جس پر رحمٰن راضی ہوا۔ (طٰہٰ:109) 5۔ اگر رحمٰن نقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی۔ (یٰس :23) 6۔ سفارشیوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ (المدثر :48) 7۔ وہی سفارش کرسکے گا جس کی سفارش پر رب راضی ہوگا۔ (الانبیاء :28)