الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ
الر یہ پُر حکمت کتاب کی آیتیں ہیں (١)
فہم القرآن : (آیت 1 سے 2) الٓرٰ۔ حروف مقطعات میں سے ہیں۔ حروف مقطعات کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور نہ اس کا عملی زندگی سے تعلق ہے۔ جس بنا پر نبی اکرم (ﷺ) نے ان کا معنی نہیں بتلایا اور نہ ہی صحابہ (رض) نے آپ سے استفسارکیا۔ جن بزرگوں نے ان کے معنیٰ کیے ہیں۔ یہ ان کی ذہنی کاوش ہے۔ جس کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ اس لیے آخر میں وہ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہیں۔ کہ اللہ ہی حروف مقطعات کے معنی جانتا ہے۔ لیکن افسوس ہمارے دور کے ایک مفسر نے ایسا دعویٰ کیا ہے جس سے علم کے نام پر جہالت اور حروف مقطعات کے بہانے شرک پھیلانے کا دروازہ کھولا ہے چنانچہ لکھتے ہیں : کہ یہ حروف خود بول کر اپنا مفہوم اولیاء کرام سے بیان کردیتے ہیں جیسے یہ حروف اس ذات پاک سے گویا ہوتے تھے جس کی ہتھیلی میں کنکریوں نے اللہ کی تسبیح بیان کی تھی۔ معاذاللہ۔ (ضیاء القرآن، جلد 2، ص :275) بہرحال یہ حروف ایسے ہیں جن کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں۔ لوگوں نے تعجب کیا کہ ہم نے انہیں میں ایک آدمی پر قرآن مجید نازل کیا ہے۔ جو انھیں کفرو شرک اور برے اعمال کے انجام سے خبر دار کرتا ہے۔ اور مسرت و شادمانی کا پیغام دیتا ہے جو اس پر ایمان لائے ان کے لیے ان کے رب کے پاس عزت و عظمت کا مقام ہے۔ کفار کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے۔ (یہاں قدم کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی جمع اقدام ہوتی ہے۔ جس کا مفہوم آگے بڑھنا ہے۔ یہاں﴿ قَدَمَ صِدْقٍ ﴾کے الفاظ لائے گئے ہیں یعنی یہ ترقی اور مرتبہ ان کو صدق نیت اور حق قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے سے حاصل ہوگا، یہی نبوت کی دعوت کا خلاصہ ہے۔) * پہلی اقوام سے بھی جب کتاب الٰہی کا جواب نہ بن پایا تو انہوں نے اپنے انبیاء ( علیہ السلام) کو جادو گر قرار دیا۔ * کتاب الٰہی کی تاثیر سے متاثر ہونے کی وجہ سے کفار اسے جادو قرار دیتے ہیں۔ * سنجیدہ لوگوں کو جادو گروں سے نفرت ہوتی ہے۔ لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے کفار انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر ہونے کا الزام دیتے تھے۔ * جادوکی کوئی حقیقت نہیں ہوتی کفار ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نبی کی بات ویسے ہی آدمی کو متاثر کرتی ہے ورنہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ * جادو گر شعبدہ باز ہوتے ہیں۔ کفار نبی (ﷺ) کے معجزہ کو جادو اور شعبدہ قرار دیتے تھے۔ حالانکہ : * وحی اللہ تعالیٰ کا کلام ہوتا ہے۔ مخلوق میں کوئی بھی اس جیسا کلام نہیں کرسکتا۔ * جادو کا اثر دیرپا نہیں ہوتا۔ جب کہ وحی دائمی اور اس پر ایمان لانے کے بعد آدمی مرنا قبول کرلیتا ہے اس سے انکار نہیں کرتا۔ * جادوگر روحانی اور جسمانی طور پر گندہ ہوتا ہے۔ پیغمبر پاکباز اور صاف ستھرا ہوتا ہے۔ * جادوگر پیٹ کے دھندے کے لیے کرتب دکھاتا ہے۔ نبی ساری عمر کسی سے ایک دمڑی کا روا دار نہیں ہوتا۔ * جادو ڈرامہ ہے۔ قرآن مجید ابدی حقیقت ہے۔ * جادوگر جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ کارسول کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ * جادو سے دین ودنیا کا نقصان ہوتا ہے۔ نبی کی اتباع سے دین و دنیا کی بھلائی اور عزت حاصل ہوتی ہے۔ جادو کی اقسام، معنی اور حقیقت : مشہور مفسر امام رازی نے جادو کو آٹھ قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کی تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جادوگروں نے اپنے فن کے لیے کون کون سے طریقے ایجاد کر رکھے تھے۔ جادو کوئی مستقل اور مستند علم نہیں کہ جس کو کرنے کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین کیا گیا ہو کیونکہ جادو تصنّع بازی کا نام ہے اس لیے ہر دور میں اس کی کرشمہ سازی اور اثر انگیزی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے تاہم جدید وقدیم جادو کا خلاصہ درج ذیل ہے : 1۔ کفر یہ‘ شرکیہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ذریعے جادو کرنا۔ 2۔ برے لوگوں‘ خبیث جنّات اور شیاطین کے ذریعے کسی پر اثر انداز ہونا۔ 3۔ علم نجوم کے ذریعے غیب کی خبریں دینا اور دوسرے کو متاثر کرنا۔ 4۔ توجہ‘ مسمریزم کی مخصوص حرکات، (ہپناٹیزم) کے ذریعے حواس خمسہ کو قابو کرنا۔ مسائل : 1۔ قرآن مجید کی آیات پُر حکمت ہیں۔ 2۔ قرآن مجید ایمان داروں کے لیے خوشخبری کا پیغام ہے۔ 3۔ کفار انبیاء کی بشریت پر اعتراض کرتے تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰلوگوں کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے کے لیے انسانوں میں سے ہی نبی بناتا رہا ہے۔ 5۔ مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مرتبہ ہے۔ 6۔ کفار نبی (ﷺ) کو جادوگر کہتے تھے۔ تفسیر بالقرآن : نبی اکرم (ﷺ) پر کفار کے الزامات : 1۔ کفار نبی کریم کو جادوگر کہا کرتے تھے۔ (یونس :3) 2۔ کفار آپ کو کاہن اور مجنون کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا کہ آپ کاہن اور مجنون نہیں ہیں۔ (الطور :29) 3۔ کفار آپ کو شاعر کہتے تھے۔ (الطور :30) 4۔ کفار آپ پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن مجید خود بنا لیتے ہیں۔ (النحل :101) 5۔ کفار نبی اکرم کو جادوگر اور کذاب کہتے تھے۔ (ص :4) 6۔ کفار نے انبیاء کو جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذاریات :52) 7۔ ظالموں نے کہا تم جادو کیے گئے شخص کی پیروی کرتے ہو۔ (الفرقان :8)