أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ تَقْوَىٰ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو، یا وہ شخص کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر جو کہ گرنے ہی کو ہو، رکھی ہو، پھر وہ اس کو لے کر آتش دوزخ میں گر پڑے (١) اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو سمجھ ہی نہیں دیتا۔
فہم القرآن : (آیت 109 سے 110) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ پچھلی آیت میں حکم ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ کو اس مسجد میں نماز پڑھنا ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر اٹھائی گئی ہے۔ اس مسجد کو آپ (ﷺ) نے مدینہ داخل ہونے سے پہلے قبا محلہ میں اس وقت تعمیر فرمایا تھا۔ جب آپ تقریبًا پندرہ دن کے لیے قبا میں قیام پذیر ہوئے تھے۔ یہاں نہ صرف اس مسجد کی تعریف فرمائی گئی ہے۔ بلکہ وہاں کے نمازیوں کے اوصاف بھی گنوائے گئے ہیں کہ یہ لوگ طہارت کا خیال رکھنے والے نہایت پاکباز ہیں۔ اللہ پاکباز لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ اس کے بعد دونوں مسجدوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ کہ کیا دونوں برابر ہو سکتی ہیں؟ ایک کی بنیاد خدا خوفی اور اپنے رب کی خوشنودی پر اٹھائی گئی ہے اور نام نہاد مسجد کی اٹھان کفرو تفریق پر رکھی ہے۔ جس کی حیثیت یہ ہے گویا کہ یہ ایسی عمارت ہے جس کی بنیاد ہی نہیں۔﴿ شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ ﴾ کا معنی ہے دریا کا وہ کنارہ جس کے نیچے سے زمین دریا برد ہوچکی ہو اور وہ گرنے ہی والا ہو۔ یہی حالت اس کے بنانے والوں کی ہے۔ ان کا کردار اس قدر گھناؤنا اور عقیدہ اس قدر گندہ ہے کہ یہ لوگ جہنم کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں۔ بس ان کے مرنے کی دیر ہے ادھر مرے اور ادھر جہنم میں دھڑام سے گرے۔ کیونکہ کفر ان کے دلوں میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ بے شک ان کے دلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے تو بھی ان کے دلوں سے کفر نکلنے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ یہ اسی حالت میں مریں گے۔ لہٰذا ان کو اپنی حکمت کے مطابق مہلت دیے جارہا ہے۔﴿ شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ ﴾کے الفاظ استعمال فرما کر اس مسجد کے گرانے کا واضح اشارہ دیا گیا جس بناء پر رسول معظم (ﷺ) نے اسے گرانے اور جلانے کا حکم صادر فرمایا۔ مسائل : 1۔ ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا چاہیے۔ 2۔ ایمان اور نفاق کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ 3۔ ایمان ایک عمارت کی طرح ہے جس کی بنیاد پختہ ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ 5۔ جس عمل کی بنیاد نفاق پر ہو خواہ کتنا ہی اچھا لگے وہ جہنم کا سبب ہوگا۔ 6۔ اعتقادی منافق مرتے دم تک نفاق سے چھٹکارا نہیں پاتا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ظالم اور فاسق کو ہدایت نہیں دیتا : 1۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (التوبۃ:109) 2۔ یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستی کرنے والا انہی میں سے ہے اس کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔ ( المائدۃ:51) 3۔ اللہ منافقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الصف :5) 4۔ اللہ منافقوں کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المنافقون :6) 5۔ جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ برے لوگ ہیں۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الجمعۃ:5)