يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اے ایمان والو! اکثر علماء اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں (١) اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے (٢)۔
فہم القرآن : (آیت 34 سے 35) ربط کلام : اہل کتاب نے اپنے علماء اور صلحاء کو خدائی کا درجہ دیا ہوا تھا ان صلحاء اور علماء نے اپنی مسند کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنالیا اس طرح دین کے داعی ہی دین کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوئے۔ ایسے پادری، درویش اور علماء ہمیشہ دین اسلام کے مخالف رہے ہیں اور ہر زمانے میں رہیں گے۔ یہودیوں کے علماء کا مدینہ، خیبر اور ان کے گرد و نواح پر اور پادریوں کا روم شام وغیرہ پر مذہبی تسلط تھا۔ عوام علماء اور صلحاء کے ظاہری رکھ رکھاؤ اور تقدس سے بڑے مرعوب تھے جس وجہ سے لوگ سمجھتے تھے کہ اگر اتنے بڑے صلحاء، بڑے بڑے مربی اور پوپ، پادری، نامور علماء اسلام قبول نہیں کر رہے تو کوئی ایسی بات ہے جو اسلام کے بارے میں ان کی نفرت کا سبب ہے۔ اس تسلط کو توڑنے اور لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لیے ایمانداروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے صاحب ایمان لوگو! یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء اور صلحاء سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان کی اکثریت دین کے پردے میں لوگوں سے ناجائز طریقے سے مال بٹورنے اور جمع کرنے کے ساتھ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہودیوں کے علماء اور عیسائیوں کے صلحا کے مال جمع کرنے کے کئی طریقے تھے۔ 1۔ فتویٰ فروشی۔ 2۔ حکام اور امراء کا تقرب حاصل کرکے مفادات اٹھانا۔ 3۔ سرکاری مناصب پر فائز ہو کر مراعات حاصل کرنا۔ 4۔ مذہبی بحث چھڑ جانے کی صورت میں کسی کے غلط مؤقف کی ناجائز تائید کرکے شہرت حاصل کرنا۔ 5۔ دولت اور شہرت کی خاطر خود کو بدلنے کے بجائے تورات اور انجیل میں تبدیلیاں کرنا۔ 6۔ معاشرے کے مؤثر اور بڑے لوگوں کو شرعی سزا سے بچانے کے لیے دین کی غلط تاویلات کرنا۔ 7۔ دین کو صرف ملازمت کے طور پر اختیار کرنا۔ 8۔ سیاسی برتری اور لیڈری کے شوق میں فرقہ پرستی کو ہوا دینا۔ بظاہر تو ان علماء اور صلحاء کا اوڑھنا بچھونا، رہنا سہنا، گفتار اور کردار دین ہی کی ترجمانی کرتا تھا لیکن حقیقت میں ظاہری لبادہ کے سوا کچھ نہیں تھا اس طرح ان لوگوں نے بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں اور سرمایہ جمع کیا جس پر انھیں وعید سنائی جا رہی ہے کہ جس سونا اور چاندی کو انفاق فی سبیل اللہ کی بجائے اکٹھا کر رہے ہو۔ اس کو قیامت کے دن جہنم کی آگ میں تپاکر تمھاری جبینوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا اور جہنم کے ملائکہ سزا دیتے ہوئے کہیں گے یہ وہی مال ہے جس کو تم اپنے لیے جمع کرتے تھے لہٰذا آج اس کا ذائقہ چکھتے رہو اور تمھیں مزید عذاب کی خوشخبری بھی دی جاتی ہے۔ ناجائز مال پر خوش ہونے کی بجائے تمھیں آخرت کے بارے میں فکر کرنی چاہیے تھی۔ یہاں یہودیوں کے علماء اور عیسائیوں کے صلحاء کے گھناؤنے کردار کا ذکر کرنے کے بعد عام اصول یہ بیان کیا ہے کہ مال جمع کرنے کی بجائے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ سونا اور چاندی کا اس لیے خصوصی ذکر کیا کہ ہمیشہ دنیا کے مال و اسباب میں یہ سرفہرست رہے ہیں۔ سابقہ دور میں سونا یا چاندی کو کرنسی کے لیے معیار ٹھہرایا گیا ہے۔ پہلے دور میں کاغذ کے نوٹوں کی بجائے چاندی، سونے کے سکے ہوتے تھے۔ یاد رہے حبر کی جمع احبار اور راہب کی جمع رہبان ہے۔ کنز کے بارے میں صحابہ کرام (رض) کا اجتماعی موقف ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی جائے وہ کنز میں شمار نہیں ہوگا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کوئی چاندی سونے کا مالک ایسا نہیں جو ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا مگر وہ قیامت کے دن ایسا ہوگا کہ اس چاندی، سونے کی تختیاں بنائی جائیں گی۔ انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا، پھر مال دار کی پیشانی اور کروٹیں اس سے داغی جائیں گی اور اس کی پیٹھ۔ جب تختیاں ٹھنڈی ہوجائیں گی تو پھر گرم کی جائیں گی پچاس ہزار برس کے دن میں اس کو یہی عذاب ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کے بارے میں جنت اور جہنم کا فیصلہ ہو۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ (ﷺ) اونٹوں کا کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جو اونٹ والا اپنے اونٹوں کا حق ادا نہیں کرتا اور اس کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دودھ دو ہے جس دن کو پانی پلائے جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ برابر زمین پر اوندھا لیٹا یا جائے گا اور وہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئیں گے ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور اس کو اپنے پاؤں سے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے جب ان میں پہلا روندتا ہوا چلا جائے گا پچھلا آجائے گا یوں ہی عذاب ہوتا رہے گا تمام دن جو پچاس ہزار برس کا ہوگا یہاں تک کہ فیصلہ ہوجائے لوگوں کا پس وہ دیکھے گاراستہ جنت یا دوزخ کی طرف پھر عرض کی اے رسول اللہ (ﷺ) ! اور گائے بکری کا کیا حال ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کہ کوئی گائے بکری والا ایسا نہیں جو اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اوندھا لٹایا جائے گا ایک پٹ پر صاف زمین پر اور ان گائے بکریوں میں سب آئیں گی کوئی باقی نہ رہے گی اور ایسی ہوں گی کہ ان میں سینگ مڑی ہوئی نہ ہوں گی نہ بے سینگ کی نہ سینگ ٹوٹی اور آکر اس کو ماریں گی۔ اپنے سینگوں سے اور روندیں گی اپنے کھروں سے جب اگلی اس پر سے گزر جائے گی پچاس ہزار برس کے دن پھر یہاں تک کہ فیصلہ ہوجائے بندوں کا پھر اس کی راہ کی جائے جنت یا دوزخ کی طرف پھر عرض کی کہ اے رسول اللہ اور گھوڑے ؟ آپ نے فرمایا گھوڑے تین طرح پر ہیں ایک اپنے مالک پر بار ہے یعنی وبال ہے دوسرا اپنے مالک کا عیب ڈھانپنے والا ہے تیسرا اپنے مالک کا ثواب کا سامان ہے اب اس وبال والے گھوڑے کا حال سنو جو باندھا ہے اس لیے کہ لوگوں کو دکھلاوے اور لوگوں میں بڑ مارے اور مسلمانوں سے عداوت کرے سو یہ اپنے مالک کے حق میں وبال ہے اور وہ جو عیب ڈھانپنے والا ہے وہ گھوڑا ہے کہ اس کو اللہ کی راہ میں باندھا ہے (یعنی جہاد کے لیے) اور اس کی سواری میں اللہ کا حق نہیں بھولتا اور نہ اس کے گھاس چارہ میں کمی کرتا ہے تو وہ اس کا عیب ڈھانپنے والا ہے اور جو ثواب کا سامان ہے اس کا کیا کہنا وہ گھوڑا ہے کہ باندھا اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی مدد اور حمایت کے لیے کسی چراگاہ یا باغ میں پھر اس نے جو کھایا اس چراگاہ یا باغ سے اس کی گنتی کے موافق نیکیاں اس کے مالک کے لیے لکھی گئیں اور اس کی لید اور پیشاب تک نیکیوں میں لکھا گیا اور جب وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک دو ٹیلے پر چڑھ جاتا ہے تو اس کے قدموں اور اس کی لید کی گنتی کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جب اس کا مالک کسی ندی پر لے جاتا ہے اور وہ گھوڑا اس میں سے پانی پی لیتا ہے اگرچہ مالک کا پلانے کا ارادہ بھی نہ تھا تب بھی اس کے لیے ان قطروں کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اس نے پیے ہیں۔ پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول گدھے کا حال فرمائیے آپ نے فرمایا گدھوں کے بارے میں میرے اوپر کوئی حکم نہیں اترا بجز اس آیت کے جو بے مثل اور جمع کرنے والی ہے۔ ﴿فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہُ وَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہُ﴾۔ جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے دیکھے گا یعنی قیامت کے دن اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھے گا۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ آتَاہ اللّٰہُ مَالًا فَلَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَہُ مُثِّلَ لَہٗ مَالُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَہٗ زَبِیبَتَانِ یُطَوَّقُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُ بِلِہْزِمَتَیْہِ یَعْنِی بِشِدْقَیْہِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا مَالُکَ أَنَا کَنْزُکَ ثُمَّ تَلَا﴿ لَا یَحْسِبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ﴾۔۔ الْآیَۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کو مال عنایت کرے وہ اس کی زکوٰ ۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کے مال کو گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی اس کی آنکھوں پر دو نشان ہوں گے اسے مال دار کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا جو اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا میں تمہارا مال ہوں، میں تمہارا خزانہ ہوں، پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿لَا یَحْسِبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ ﴾ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا وَإِنَّ اللّٰہَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِینَ فَقَالَ ﴿یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنْ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ﴾ وَقَالَ ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ﴾ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیل السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ یَا رَبِّ وَمَطْعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالْحَرَامِ فَأَنَّی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اے لوگو ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور صرف پاک مال ہی قبول کرتا ہے اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے جو کہ اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اے رسولو ! پاکیزہ مال سے کھاؤ اور نیک عمل کرو بلاشبہ جو تم کرتے ہو میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ اور یہی ارشاد ایمان والوں کے لیے ہے! پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ جو میں نے تم کو عنایت کی ہیں۔ پھر ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا جو کہ دور دراز کا سفر کرتا ہے اس کے سر کے بال پراگندہ ہیں وہ اپنے ہا تھوں کو آسمان کی طرف پھیلاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب ! اے میرے رب ! اس کا کھانا اس کا پینا اس کا لباس حرام ہے اسکی پرورش بھی حرام مال سے ہوئی تو اسکی دعا کیسے قبول کی جائے گی۔“ حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں سونے کی پازیب پہنتی تھی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا یہ کنز ہے ؟ آپ نے فرمایا جو مال زکوٰۃ کی حد تک پہنچ گیا اور اس کی زکوٰۃ ادا کردی گئی وہ کنز نہیں ہے۔ (ابو داؤد) مسائل : 1۔ یہود و نصاریٰ کے علماء کی اکثریت حرام خور ہے۔ 2۔ یہود و نصاریٰ کے علماء دین کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ 3۔ ناجائز طریقہ سے کمایا ہوا مال جہنم کی آگ بن جائے گا۔ 4۔ زکوٰۃ نہ دینے اور ناجائز مال کمانے والوں کے لیے جہنم کی خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن : حرام کھانے والے لوگ : 1۔ لوگوں کا مال ناجائز طریقہ سے کھانا حرام ہے۔ (البقرۃ:188) 2۔ اے لوگو! آپس میں اپنے مال کو حرام طریقہ سے نہ کھاؤ۔ (النساء :29) 3۔ یتیموں کے مال کے ساتھ اپنا مال بدنیتی سے ملا کر کھانا حرام ہے۔ (النساء :2) 4۔ جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے۔ (الانعام :121) 5۔ یتیموں کا مال ظلم سے کھانا حرام ہے۔ (النساء :10) 6۔ اللہ کی آیات کو فروخت کرنے والے اپنے پیٹوں میں آگ بھر تے ہیں۔ (البقرۃ:174) 7۔ تمہارے اوپر مردار، خون، خنزیر اور غیر اللہ کے نام دی ہوئی چیز حرام ہے۔ (النحل :115) 8۔ وہ لوگ اسے حرام قرار نہیں دیتے جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قراردیا ہے۔ (التوبۃ:29) 9۔ اے ایمان والو! اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار نہ دو۔ (المائدۃ:87) 10۔ انہوں نے اللہ کے حلال کردہ رزق کو حرام ٹھہرایا۔ (الانعام :140) 11۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی فحاشی کو حرام قرار دیا ہے۔ (الاعراف :33)