يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے ایمان والو! بیشک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں (١) وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں (٢) اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے (٣) اللہ علم و حکمت والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : مشرک فکری اور اعتقادی طور پر پلید ہوتا ہے۔ اسی لیے انبیاء اور موحدّین کی مخالفت کرتا ہے جب یہ عقیدہ توحید کے مخالف ہے تو اسے بیت اللہ میں داخلے کا کوئی حق نہیں پہنچتا کیونکہ بیت اللہ تو اللہ کی وحدت کا ترجمان ہے۔ اس سورۃ کی ابتداء میں مشرکین کو الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ تم چار مہینے سے زیادہ حدود حرم میں نہیں رہ سکتے سوائے ان لوگوں کے جن کا مسلمانوں کے ساتھ کیے ہوئے معاہدہ کی مدت باقی ہے۔ جونہی معاہدہ کی مدت پوری ہوگی انھیں بھی حدود حرم سے نکل جانا ہوگا۔ اس کے بعد مشرکین مکہ کو آگاہ کیا گیا کہ آئندہ تمھارے ساتھ کوئی عہد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ تم نے بار بار عہد شکنی کی ہے پھر یہ ارشاد ہوا کہ مشرکین کو ہرگز حق نہیں پہنچتا کہ وہ بیت اللہ کی تولیت اور مساجد کی تعمیر و ترقی کی ذمہ داری سنبھالیں۔ ان احکام کے نفاذ کے رد عمل میں جو مشکلات اور مسائل پیدا ہوئے تھے ان کا تفصیلی حل بتایا گیا اور اس دوران مسلمانوں کی اعتقادی اور اخلاقی تربیت کے احکامات جاری کرتے ہوئے مشرکین کے کردار کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا۔ اب دو ٹوک انداز میں مشرک کی اعتقادی اور اخلاقی نجاستوں اور خباثتوں کے پیش نظر اس کی حیثیت بتلائی جا رہی ہے کہ مشرک نجس اور پلید ہوتا ہے اس لیے اس سال کے بعد انھیں ہمیشہ کے لیے حدود حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہاں پھر مسلمانوں کو اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر یہ لوگ حدود حرم میں داخل نہیں ہو سکیں گے تو ہمیں اس کا معاشی نقصان اٹھانا پڑے گا جس پر تسلی دی جا رہی ہے تمھیں معیشت کی تنگی کا خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے یقین رکھو کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے فضل سے دولت مند کر دے گا یقیناً اللہ تعالیٰ علیم اور حکیم ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ ہر آیت کے آخری الفاظ اس کے مفہوم کی جامع ترجمانی کرتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے علیم اور حکیم ہونے کی صفات اس لیے بیان فرمائیں کہ وہ اپنے ہر حکم کے نتائج کو جانتا اور اس کی حکمتوں سے باخبر ہے لہٰذا مسلمانوں کو اپنے رب کے احکام پر مکمل یکسوئی اور بے فکری کے ساتھ من و عن عمل کرنا چاہیے وہی غربت اور تونگری کا مالک ہے۔ چنانچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حدود حرم سے مشرکین کے دیس نکالا کے باوجود اس وقت سے لے کر آج تک مکہ کی منڈیوں میں کسی چیز کی کمی واقع نہیں ہوئی جہاں تک مشرک کے نجس ہونے کا تعلق ہے اس نجاست سے مراد جسمانی نجاست نہیں بلکہ اس سے مراد اعتقادی، اخلاقی اور کردار کی نجاست ہے جس کی وجہ سے مشرک اور غیر مسلم کو حدود حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ نبی اکرم (ﷺ) نے مدینہ کو بھی حرم قرار دیا اور اس کی حدود متعین فرمائیں مکہ اور مدینہ مسلمانوں کا روحانی مرکز ہیں۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ انھیں کفر و شرک سے پاک رکھا جائے جیسا کہ ہر حکومت اپنی مملکت کے دارالخلافہ کے معاملات میں زیادہ حساس ہوتی ہے اور وہ اس کے معاملات پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک کا دارالخلافہ ہر اعتبار سے سازشوں سے پاک رہے۔ (قَالَ عَلِیٌّ ُ مَا عِنْدَنَا کِتَابٌ نَقْرَؤُہُ إِلَّا کِتَاب اللّٰہِ غَیْرَ ہَذِہِ الصَّحِیفَۃِ قَالَ فَأَخْرَجَہَا فَإِذَا فیہَا أَشْیَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ وَأَسْنَانِ الْإِبِلِ قَالَ وَفِیہَا الْمَدِینَۃُ حَرَمٌ مَا بَیْنَ عَیْرٍ إِلٰی ثَوْرٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الحج] ” حضرت علی (رض) فرماتے ہیں میرے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب نہیں جس کو میں پڑھوں مگر یہ صحیفہ ہے۔ راوی کہتے ہیں انھوں نے اسے نکالا تو اس میں کچھ جراحی اور اونٹ کے دانت تھے کہتے ہیں اس میں لکھا ہوا تھا کہ مدینہ عیرمقام سے لے کر ثور تک حرم ہے۔“ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے امام مالک کا نقطۂ نظریہ ہے کہ مشرک کو کسی مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جبکہ دوسرے آئمہ کا خیال ہے کہ حرمین کے سوا دوسری مساجد میں کسی اہم ضرورت کے پیش نظر مشرک اور کافر داخل ہوسکتا ہے۔ (قَالَ إِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَہَا اللّٰہُ وَلَمْ یُحَرِّمْہَا النَّاسُ فَلَا یَحِلُّ لامْرِءٍ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْفِکَ بِہَا دَمًا وَلَا یَعْضِدَ بِہَا شَجَرَۃً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فِیہَا فَقُولُوا إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِہِ وَلَمْ یَأْذَنْ لَکُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِی فیہَا سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُہَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِہَا بالْأَمْسِ وَلْیُبَلِّغْ الشَّاہِدُ الْغَائِبٍ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب یبلغ العلم الشاہد الغائب] ” رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا ہے اس کو لوگوں نے حرم نہیں بنایا۔ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس میں کسی کا خون بہائے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی درخت کاٹا جائے۔ تو اگر کوئی شخص یہ بات کہے رسول اللہ (ﷺ) کے قتال کے بارے میں تو تم یہ کہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کچھ دیر کے لیے اجازت دی تھی۔ تم میں سے کسی کو بھی یہ اجازت نہیں اور مجھے بھی دن کے کچھ حصے میں اجازت دی گئی اس کی حرمت پہلے کی طرح ہی لوٹ آئی ہے جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ دوسرے لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں۔“ مسائل : 1۔ مشرک پلید ہوتا ہے اس لیے اسے حدود حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ 2۔ غربت اور تونگری اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ 3۔ رزق حلال کی کشادگی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر حکم کی حکمت اور اس کے نتائج کو جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : مال و اولاد کی حیثیت : 1۔ مال اور اولاد دنیا کی نمائش ہیں باقی رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ (الکہف :46) 2۔ قیامت کے روز مال اولاد کام نہیں آئے گی۔ (الشعراء :88) 3۔ جان لو کہ مال، اولاد تمھارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال :28) 4۔ اے ایمان والو تمھیں مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں۔ (المنافقون :9) 5۔ مال اور اولاد تمھارے لیے آزمائش ہے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ (التغابن :15) 6۔ اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرنا بہترین تجارت ہے۔ (الصف :11) 7۔ اللہ نے مومنین سے ان کے مال اور جان جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ (التوبۃ:111)