يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہ پورا گنہگار ظالم ہے (١)۔
فہم القرآن : (آیت 23 سے 24) ربط کلام : جہاد کا حق تب ادا ہوسکتا ہے جب مومن اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور اسی کی خاطر کسی سے دشمنی رکھے۔ قرآن مجید نے مختلف الفاظ اور انداز میں یہ بات بار بار باور کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو کفار اور مشرکین کے ساتھ قلبی محبت نہیں رکھنی چاہیے۔ جس کا بدیہی تقاضا ہے کہ ایمان اور مسلمانوں کو ہر چیز سے مقدم سمجھا جائے یہی امت کو متحد اور منظم رکھنے کا آخری اور بنیادی اصول ہے۔ اس کے لیے حکم دیا گیا ہے کہ اے مسلمانو! اگر تمھارے والدین اور بھائی ایمان پر کفر کو ترجیح دینے والے ہوں تو انھیں بھی اپنا رشتہ دار اور خیر خواہ مت سمجھو اگر تم نے اس حکم کے باوجود ان سے قلبی دوستی اور رشتے ناطے قائم رکھے تو پھر تم بھی ظالموں کے ساتھ شمار کیے جاؤ گے۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر یہ بات سرور دو عالم (ﷺ) کی زبان سے کہلوائی گئی ہے کہ آپ واشگاف اعلان فرمائیں کہ اے مسلمانو! اگر تمھارے والدین، بیٹے، بھائی، تمھاری بیویاں، تمھارے رشتے دار اور جو مال تم کماتے ہو، تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمھارے مکانات جو تمھیں بہت پسند ہیں اللہ، اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر اللہ کے حکم کا انتظار کرو۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسے مسلمان نافرمان ہیں۔ جنکی وہ کبھی رہنمائی نہیں کرتا۔ مال عزت کا باعث اور زندگی گزارنے کا مستحکم ذریعہ ہے مال کی بڑھوتری کے لیے تجارت لازمی چیز ہے مکان صرف سر چھپانے کی جگہ ہی نہیں غور کیا جائے توانسان کی حقیقی دنیا ہی اس کا مکان ہوا کرتا ہے۔ باقی جہاں چلنے، پھرنے اٹھنے بیٹھنے اور کاروبار کے لیے ہے۔ زندگی میں گھرکی ہر آدمی کو خواہش ہوتی ہے کہ اس کی رہائش گاہ بہتر سے بہتر اور آرام دہ ہوحتی کہ پرندے رات کے وقت اپنے گھونسلے اور کیڑے مکوڑے اپنی بل کی طرف پلٹتے ہیں۔ اس کے لیے﴿ تَرْضَوْنَھَا﴾ کا لفظ استعمال فرمایا کہ جنھیں تم نہایت پسند کرتے ہو یہ مکانات اور سب کی سب چیزیں اور رشتے ناطے جو تمھیں ایک سے ایک بڑھ کر محبوب اور پسند ہیں اگر یہ اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر تمہیں عزیز ہیں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کرو۔ (عَنْ ثَوْبَانَ (رض) مَوْلَی رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یُوشِکُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ الْأُمَمُ مِنْ کُلِّ أُفُقٍ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَۃُ عَلٰی قَصْعَتِہَا قَالَ قُلْنَا یَا رَسُول اللّٰہِ أَمِنْ قِلَّۃٍ بِنَا یَوْمَئِذٍ قَالَ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ وَلَکِنْ تَکُونُونَ غُثَاءً کَغُثَاء السَّیْلِ یَنْتَزِعُ الْمَہَابَۃَ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّکُمْ وَیَجْعَلُ فِی قُلُوبِکُمْ الْوَہْنَ قَالَ قُلْنَا وَمَا الْوَہْنُ قَالَ حُبُّ الْحَیَاۃِ وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ) [ رواہ احمد] ” حضرت ثوبان جو رسول اکرم (ﷺ) کے غلام تھے فرماتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا وہ وقت قریب ہے کہ تم پر جماعتیں ہر افق سے ٹوٹ پڑیں گئی جس طرح کھانے والے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ثوبان کہتے ہیں ہم نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم اس وقت قلت میں ہوں گے آپ (ﷺ) نے فرمایا نہیں بلکہ تم اس وقت کثیر تعداد میں ہوگے لیکن تمہاری مثال پانی کی جھاگ کی طرح ہوگی تمہارے دشمن کے دل سے تمہارا رعب اٹھالیا جائے گا اور تمہارے دلوں میں وھن پیدا ہوجائے گا ہم نے پوچھا وھن کیا ہے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔“ اگر یہ چیزیں تمھیں اللہ، اس کا رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے محبوب ہیں تو پھر حکم کا انتظار کرو۔ مفسرین نے یہاں حکم سے مراد اللہ کا عذاب لیا ہے یعنی پھر تم پر اللہ کا عذاب نازل ہو کر رہے گا جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں جن میں پہلی صورت یہ ہوگی کہ دشمن نظریاتی اور حربی اعتبار سے تم پر غالب آئے گا۔ یہاں دنیا کی آٹھ بڑی نعمتوں کا ذکر کیا ہے جن پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے ان میں سے کوئی ایک چیز انسان کے پاس نہ ہو زندگی اجیرن محسوس ہوتی ہے۔ والدین سلسلۂ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہیں بیویاں تخلیق انسانی کا وسیلہ بیٹے، بھائی، رشتہ دار درجہ بدرجہ انسان کے لیے معاون اور قوت کا باعث ہیں۔ مال اور کاروبار زندگی گزارنے کا ذریعہ، مکان جائے قیام ہے۔ مسائل : 1۔ مسلمان کو کسی کافر اور مشرک کے ساتھ قلبی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ بے شک وہ والدین اور قریبی عزیزہی کیوں نہ ہوں۔ 2۔ کفار اور مشرکین کے ساتھ رشتے ناطے اور قلبی دوستی رکھنے والے مسلمان ظالم ہیں۔ 3۔ اللہ، اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ دنیا کی ہر چیز سے عزیز تر ہونے چاہییں۔ 4۔ جو مسلمان اللہ، اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے دنیا کے رشتے اور دوسری چیزوں کو مقدم جانتے ہیں وہ فاسق ہیں۔ تفسیر بالقرآن : فاسق کی نشانیاں : 1۔ فاسق اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ (البقرۃ:99) 2۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ:18) 3۔ جو اقرار کرنے کے بعد بدل جائیں وہی فاسق ہیں۔ (آل عمران :82) 4۔ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔ (المائدۃ:47) 5۔ غلط اطلاعات فراہم کرنے اور ان کی تشھیر کرنے والے فاسق ہیں۔ (الحجرات :6) 6۔ اللہ کی اطاعت سے منہ موڑنے والے فاسق ہیں۔ آل عمران :82) 7۔ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے فاسق ہیں۔ (المائدۃ:47)