الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ
جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی، اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وہ اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 20 سے 22) ربط کلام : مسجد حرام کی تعمیر و ترقی اور حجاج کی خدمت کا ایمان اور کردار کے ساتھ موازنہ کرنے کے بعد حقیقی ایمان کے تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔ ایمان صرف فکر اور عقیدہ کا نام نہیں یہ اس وقت تک مکمل اور اکمل نہیں ہوتا۔ جب تک اس کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں۔ اس کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نظریے کی خاطر ہر اس بات اور عمل کو چھوڑ دے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے۔ ہجرت کا حقیقی اور جامع مفہوم بیان کرتے ہوئے نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ حقیقی مہاجر وہ ہے کہ جو ہر اس کام کو چھوڑ دے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ دوسرا مرکزی اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اس دعوت کے لیے اپنا مال اور جان کھپانے کی کوشش کرے جس کا اس نے کلمہ پڑھ کر اقرار اور اظہار کیا ہے اس کے بارے میں نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا کسی ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل اس راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اہل علم نے جہاد کی چار اقسام بیان کی ہیں : 1۔ جہاد بالنفس : سب سے پہلے انسان اپنی خواہشات اور جذبات کے خلاف جہاد کرے تاآنکہ اس کا نفس اللہ اور اس کے رسول کی غلامی میں رہنے پر راضی ہوجائے۔ ایک غزوۂ سے واپسی پر آپ نے صحابہ (رض) کو فرمایا کہ جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف آؤ۔ صحابہ نے استفسار کیا کہ جہاد اکبر کیا ہے آپ نے فرمایا اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا۔ 2۔ جہاد باللسان : نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔ یہ وہ جہاد ہے کہ جب تک اس کے تقاضے پورے نہ ہوجائیں اس وقت تک قتال فی سبیل اللہ کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی کے پیش نظر صحابہ (رض) کا معمول تھا کہ جب ایسے لوگوں کے ساتھ ان کا سامنا ہوتا جن تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی تھی صحابہ قتال فی سبیل اللہ سے پہلے انھیں دو باتوں کی دعوت دیتے تھے۔ اسلام قبول کرو یا جزیہ دینے کے لیے تیار ہوجاؤ جب لوگ انکار کرتے تو پھر ان کے ساتھ قتال فی سبیل اللہ کیا جاتا۔ اس لحاظ سے پہلے جہاد باللسان ہے پھر جہاد بالسیف۔ مکہ میں نبی اکرم (ﷺ) کی تبلیغ کو جہاد اکبر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی کفار کے خلاف جہاد جاری رکھو۔ یہ بہت بڑا جہاد ہے۔ (الفرقان :52) اہل علم نے جہاد بالقلم کو بھی اس جہاد میں شامل کیا ہے۔ 3۔ جہاد بالمال : قرآن مجید میں متعدد مقامات پر جہاد بالمال کا پہلے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ مال کے بغیر اسلحہ اور مجاہدین کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ جہاد فی السیف سے پہلے جہاد بالمال کی ضرورت پیش آتی ہے۔ 4۔ جہاد بالسیف : اس سے مراد میدان کار زار میں دشمن کے خلاف برسرپیکار ہونا ہے جو لوگ اس جہاد میں حصہ لیں گے وہ دنیا میں کامیاب اور آخرت میں ان کے رب نے انھیں اپنی رحمت، خوشنودی اور ہمیشہ ہمیش جنت میں داخلے کی بشارت دی ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے اجر عظیم ہوگا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) ثَلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الْإِیمَانِ الْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَلَا نُکَفِّرُہُ بِذَنْبٍ وَلَا نُخْرِجُہُ مِنْ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ وَالْجِہَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِی اللّٰہُ إِلٰی أَنْ یُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِی الدَّجَّالَ لَا یُبْطِلُہُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ وَالْإِیمَان بالْأَقْدَارِ) [ رواہ ابو داؤد : کتاب الجہاد باب فی الغزو مع أئمۃ الجوار] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا تین چیزیں ایمان کی اصل ہیں 1 جس نے لا الہ الا اللہ کہا اس سے ہاتھ روک لینا۔2 کسی کے گناہ کی وجہ سے اسے کافر نہ قرار دینا۔ اس کی عملی غلطی سے دائرہ اسلام سے خارج قرار نہ دینا۔3 اور جہاد جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس وقت سے لے کر میری امت کے دجال سے لڑنے تک جاری رہے گا۔ اسے کسی ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل نہیں روک سکے گا اور ایمان تقدیر کے مطابق ہے۔“ (عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فِی سَبِیل اللّٰہِ فَقَدْ غَزَا وَمَنْ خَلَفَ غَازِیًا فِی أَہْلِہِ فَقَدْ غَزَا) [ رواہ الترمذی : کتاب الجہاد باب فضل من جہز غازیا] ” حضرت زید بن خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا جس نے کسی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کا سامان مہیا کیا بلاشبہ اس نے خود جہاد کیا۔ جس نے کسی مجاہد کے گھر کی خیر خواہی کی گویا اس نے بھی جہاد کیا۔“ مسائل : 1۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ کے راستے میں مال اور جان کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ 2۔ مجاہدین دنیا میں کامیاب اور آخرت میں اجر عظیم پائیں گے۔ 3۔ مجاہدین ہمیشہ ہمیش جنت میں رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن : کامیاب ہونے والے لوگ : 1۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں، مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: 72، 89، 100) 2۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ:111) 3۔ اے اللہ نیک لوگوں کو برائی سے بچا جو برائی سے بچ گیا اس پر تیرا رحم ہوا۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن :9) 4۔ ان کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدخان :57) 5۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یہ ظاہر کامیابی ہے۔ (الجاثیۃ :30) 6۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہیں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف :12) 7۔ جس کو آگ کے عذاب سے بچا دیا گیا اور جنت کا داخلہ مل گیا وہ کامیاب ہے۔ (آل عمران :185 )