إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ
اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں (١)۔
فہم القرآن : ربط کلام : پچھلی آیت میں مشرکین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ مساجد کے متولی نہیں ہو سکتے یہاں وضاحت کی گئی کہ مساجد کے متولی حضرات کے کیا اوصاف ہونے چاہئیں۔ روئے زمین پر اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ اور مقام مسجد ہے جس کو ذکر وفکر اور اللہ کے حضور سجدہ گاہ بنایا گیا ہے۔ نبی محترم (ﷺ) نے اس زمین کے ٹکرے کو اللہ کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دیا ہے۔ آپ (ﷺ) فرمایا کرتے تھے کہ لوگو! اللہ کے باغوں میں داخل ہو کر خوب سیر ہوکر کھایا کرو۔ لوگوں نے پوچھا اللہ کے باغ کون سے ہیں اور ان میں کھانا پینا کیسا؟ آپ (ﷺ) فرماتے ہیں مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور روح کے لیے ذکرواذکار تازہ پھل کھانے کے مترادف ہیں۔ (مشکوٰۃ باب المساجد ومواضع الصلاۃ) جس طرح گلشن وباغیچے کو صاف ستھر ارکھا جاتا ہے۔ آپ (ﷺ) کے فرمان کے مطابق مسجد روح و نفس اور جسم وجان کے لیے روحانی اور خدائی باغ ہیں۔ انہیں تو ہر حال میں پاک صاف اور ستھرارکھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی تعمیر کرنے والے دوپیغمبروں سے یہی وعدہ لیاتھاکہ میرے گھر کو ہر طرح سے پاک صاف رکھنا۔ ﴿وَعَھِدْنَآ اِلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ للطَّآءِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ﴾ [ البقرۃ:135] ” ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا تھا کہ میرے گھر کو طواف‘ رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھنا۔“ اللہ کے گھر کی ظاہری صفائی یہ ہے کہ اسے گردوغبار‘ جنگ وجدال اور فتنہ وفساد سے پاک رکھا جائے۔ پہلے پارے میں ارشاد ہے کہ جو لوگ مسجدوں کے ماحول کو خراب اور ان میں فتنہ وفساد پیدا کرتے ہیں ان کے لیے مسجدوں میں ایسی کڑی نگرانی کا ماحول اور اخلاقی دباؤ ہونا چاہیے کہ وہ مسجد میں شرارت کرتے ہوئے خوف محسوس کریں۔ مسجدوں میں سکون اور ان میں آنے والے تب ہی ذوق وشوق کے ساتھ آئیں گے کہ مساجد میں صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ ساتھ پر سکون ماحول پیدا کیا جائے۔ مسجدوں میں بے وجہ گفتگو اور شوروغوغا نمازیوں کے سکون اور عبادت کے ذوق وشوق کو تباہ کردیتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمر (رض) نے مسجد میں دو آدمیوں کو بلند آواز میں باتیں کرتے ہوئے سنا تو ان کو ہلکی سی ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا کہ تم دیہاتی ہو اور تمہیں مسجد کے آداب کا علم نہیں اگر تم مدینے کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا۔ (مشکوٰۃ : باب المساجد ومواضع الصلاۃ) اخلاقیات عالم کا مسلمہ اصول ہے کہ جب کوئی شخص دوسرے کے گھر جائے تو وہ اپنی عزت اور دوسرے کے احترام کی خاطر لڑائی جھگڑے حتیٰ کہ آواز اونچی کرنے سے بھی کتراتا ہے۔ مسجد تو رب ذوالجلال کا گھر ہے۔ اللہ کی سطوت وجبروت اور اس کے گھر کا احترام یہ ہے آدمی ہر اعتبار سے وقار اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ جو شخص اللہ کے گھر کا احترام نہیں کرتا اس کے بارے میں یہ انتباہ ہے : ﴿لَھُمْ فِیْ الْدُنْیَا خِزْیٌ وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (البقرۃ:114) ” وہ دنیا وآخرت میں ضرور ذلیل وخوار ہو کر رہیں گے۔“ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی سمع وطاعت کی تربیت گاہ‘ رحمت خداوندی کا مرکز اور اس کی تجلیات کی جگہ ہے۔ اس لیے یہاں آنے والے کو یہ تعلیم دی گئی کہ مسجد میں دایاں قدم رکھتے ہی اللہ کی رحمتوں کے حصول کے لیے یہ دعا کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوا جائے۔ ﴿اِنَّمَایَعْمُرُ مَسٰجِدَاللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰ خِرِ﴾ [ التوبۃ:18] ” بے شک مساجد کی تعمیر میں وہی لوگ حصہ لیتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔“ مسجد کا ما حول جس قدر پر سکون، صفائی اور اخلا ق کے اعتبار سے صاف ستھراہو گا اسی قدرنما زی حضرات کو روحانی اور نفسیاتی فا ئدہ اور سکون وقرار حا صل ہوگا۔ مسجد میں دل جمعی کے ساتھ بیٹھنا اور فکر و نظرکی یکسوئی کے ساتھ اللہ کا گھر سمجھ کر اس کی با رگاہ میں حا ضری کا تصور لیے ہوئے ٹھہرے رہنا بے پناہ روحانی اور نفسیاتی فوائد سے بھر پور عمل ہے۔ اس گئے گذرے دور میں کوئی شخص اس نیت و ارادے کے ساتھ بیٹھ کر اندازہ کرسکتا ہے کہ جو سکون مسکن دواؤں‘ راحت بخش فضاؤں اور طعام وقیام کی لذتوں سے حا صل نہیں ہوتا، وہ اللہ کے گھر میں چند لمحے گذا رنے سے اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ آدمی کی بے چینی اور مضطرب طبیعت میں قرار واطمینان کے جھونکے اس کی طبیعت کو ڈھارس بندھاتے اور اس کی روح کو بہلا رہے ہوتے ہیں۔ اس سکون واطمینان اور روحانی اثرات کا تسلسل فقط اس دنیا تک ہی نہیں بلکہ اسکے نتا ئج لامتنا ہی مستقبل پر اس طرح مرتب ہوں گے کہ محشر کے دن سورج کی شدت و حرارت کی وجہ سے پسینے میں شرابور لوگ تپش اور گرمی کی بنا پر اس طرح دکھائی دیں گے جیسے کوئی بھا ری نشہ استعمال کرنے کے بعد لڑکھڑا رہا ہوتا ہے۔ اس ہولناک موقع پر عرش معلی سے سات قسم کے لوگوں کے لیے اعلان ہوگا۔ کہ فلاں، فلاں لوگ میرے عرش کے سائے میں آجائیں ان میں ایک طبقہ وہ ہوگا جو مسجد میں پروقار اور مکمل اطمینان کیساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ (مشکوٰۃ: باب المساجد و مواضع الصلاۃ) دیکھنے والوں کے لیے یہ سچائی کسی دلیل کی محتا ج نہیں کہ جو افسران یا اثر ورسوخ اور سماجی لحاظ سے بڑے لوگ مسجدوں میں پا نچ وقت حا ضری کی سعادت سے سرفراز ہوتے ہیں‘ چند لوگوں کو چھوڑ کر ایسے افسران اور سر کردہ حضرات میں وہ رعونت اور تکبر نہیں پا یا جاتا جو مسجدوں سے دور رہنے والے اعلی حکام اور بڑے لوگوں میں پا یا جاتا ہے۔ ایسے افراد تک عوام کی رسائی ہزار پا بندیوں کے با وجود آج بھی بہت آسان دکھائی دیتی ہے۔ مسجدوں میں حاضری کی وجہ سے انکے رویہ میں شفقت اور محبت کا پہلو غا لب رہتا ہے۔ جب تک اقتدار میں شریک لوگ مسجد میں آیا کرتے تھے اس وقت تک عوام اور حکام کے درمیان اتنا بعد نہیں تھا۔ اس لیے ہم جس قدر بھی مسجدوں کے ساتھ وا بستگی پیدا کریں گے اسی قدر روحانی اور معاشرتی ترقیوں کو پانا ہمارے لیے آسان ہوگا۔ مسجد میں داخل ہونے کی دعا : (اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ) [ مشکوٰۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ] ” اے اللہ ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیجیے۔“ مسجد سے نکلنے کی دعا : (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ) [ مشکوٰۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ] ” اے اللہ ! میں آپ کے فضل کا طلب گار ہوں۔“ آداب : اس رحمت گاہ کی تعمیر اور اسے ہر انداز سے آباد کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اس بشارت سے سرفراز فرمایا ہے : مسائل : 1۔ ایمان دار اور متقی لوگ ہی مساجد کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ 2۔ مساجد کو آباد کرنا ہدایت یافتہ لوگوں کی نشانی ہے۔