أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے (١) جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں (٢) اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے (٣) کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اب پھر قتال فی سبیل اللہ کی تاکید کی جارہی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال کیوں نہیں کرتے؟ جب کہ بار بار عہد شکنی کرنے کے علاوہ انھوں نے آپ (ﷺ) کو مکہ سے نکالا اور پھر اس کے بعد مدینہ پر حملہ آور ہو کر جنگ میں پہل کی یہاں تک کہ منافقین کے ساتھ مل کر نبی اکرم (ﷺ) کو مدینہ سے بھی نکالنے کا منصوبہ بنایا ایسی صورت میں ان کے ساتھ قتال فی سبیل اللہ کا معرکہ ضرور ہونا چاہیے لیکن تمھاری کیفیت یہ ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی بجائے کفار سے زیادہ ڈرتے ہیں حالانکہ تمھیں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنا چاہیے بشرطیکہ تم صدق دل کے ساتھ ایمان لانے والے ہو۔ جو مسلمان ہو کر کفار سے ڈرتے ہیں وہ غالب آنا تو درکنار کبھی کفار کے خلاف قتال کرنے کے لیے سوچ بھی نہیں سکتے۔ اللہ سے ڈرنے سے مسلمان کو بیک وقت دو فائدے پہنچتے ہیں۔ اس کے کردار میں نیکی، للہیت کا اضافہ ہوتا ہے اور دشمن کے مقابلے میں بہادر ثابت ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمان اپنے سے دس گنا زیادہ طاقت ورکے ساتھ ٹکرانے میں ہچکچاہٹ نہیں سمجھتے تھے۔ سورۃ آل عمران 139میں ایمان کا صلہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر تم ایمان کے تقاضے پورے کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں ہمیشہ سر بلند رکھے گا۔ مسائل: 1۔ معاہدہ کی پاسداری نہ کرنے والوں کے ساتھ لڑائی کی اجازت ہے۔ 2۔ ایمان داروں کو ہر حال میں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔