سورة التوبہ - آیت 1

بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

(سورۃ التوبہ۔ سورۃ نمبر ٩۔ تعداد آیات ١٢٩) اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے (١) ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد پیمان کیا تھا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

تعارف سورۃ التوبۃ : یہ مدنی سورۃ 16رکوع 129آیات اور 4078کلمات پر محیط ہے۔ اس مبارک سورۃ کے دو نام ہیں التوبہ اور برأت۔ التوبۃ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس سورۃ کی آیت 118میں غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے مخلص صحابہ کی توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔ اس سورت کو سورۃ البرأۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ہی اس لفظ سے ہوا ہے کہ جس میں مشرکین مکہ اور ان کے گرد وپیش لوگوں سے کیے گئے معاہدات سے برأت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سورۃ کا نزول 9ہجری کے قریب ہوا ہے جب نبی اکرم (ﷺ) حضرت ابو بکر صدیق کو حجاج کا امیر بنا کر روانہ کرچکے تھے ان کے رخصت کرنے کے فوراً بعد اس سورۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تب اللہ کے پیغمبر نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی کو مکہ روانہ فرمایا کہ وہ آپ کی طرف سے حج کے موقع پر مشرکین کے ساتھ معاہدہ سے برأت کا اعلان کریں چنانچہ حضرت علی (رض) نے حجاج میں سرعام یہ اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا گویا کہ اس اعلان کا مدعا یہ تھا کہ اب وہ دور گزر چکا ہے جب مشرکین بیت اللہ کی تولیت کا دعوٰی کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس کے داخلہ سے روکتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کی طرف سے بیت اللہ کی تولیت اور اسلام کے مکمل غلبہ کا اعلان تھا۔ چنانچہ اعلان ہوتا ہے کہ آج کے بعد اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) اعلان کرتے ہیں کہ ان کا مشرکین کے ساتھ کیے گئے عہد سے کوئی واسطہ نہیں تاہم اس اعلان میں یہ گنجائش رکھی گئی کہ جن مشرکین کے ساتھ کیے گئے عہد کی مدت باقی ہے اس کی پاسداری کی جائے گی جس کا مفہوم یہ ہے کہ آئندہ سر زمین حجاز میں مشرکوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہوگا جس کے بنیادی طور پر دو اسباب تھے۔ ایک مشرکین کا بار بار مسلمانوں سے عہد شکنی کرنا اور دوسرا مرکز اسلام کو ہمیشہ کے لیے اغیار سے پاک کرنا تھا جس طرح آج بھی نظر یاتی حکومت اپنے دارالحکومت میں اغیار کو رہنے کا حق نہیں دیتی البتہ ایسے لوگ سچی توبہ کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ اپنی مسلمانی ثابت کریں تو وہ مسلمانوں کے بھائی تصور ہوں گے اور اسلامی مملکت میں جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آیت ١٦ سے لے کر آیت ٢٤ میں واضح فرمایا مساجد کی تولیت اور نگرانی کا صرف ان لوگوں کو حق پہنچتا ہے جو عقیدہ توحید رکھنے کے ساتھ ارکان اسلام کی پابندی کرنے والے ہوں اگر وہ عقیدہ توحید اور ارکان اسلام سے لاپرواہی کرتے ہیں تو بیت اللہ اور حجاج کرام کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسے لوگوں کے ساتھ دلی محبت اور رشتہ ناطہ قائم کرنے کی اجازت ہے، پھر مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے انھیں غزوۂ بدر اور حنین کا واقعہ یاد کروایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے خصوصی مدد کے ساتھ مسلمانوں کی تائید فرمائی تھی، پھر یہود و نصاریٰ کے علماء اور عوام کے دینی اور اخلاقی کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی غالب اکثریت حرام خور اور دین اسلام کے راستے میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ اس کے بعد غزوۂ تبوک کا پس منظر اور اس کے حالات کا ذکر کیا جس کا منظر یہ تھا ایک طرف مسلمانوں کی فصلیں تیار تھیں اور دوسری طرف موسم کی شدت اور تبوک کا دور دراز کا سفر سامنے تھا۔ ان حالات میں منافقوں نے ایک ایک کرکے اس غزوہ سے فرار کا راستہ اختیار کیا جن میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے مختلف بہانے بنا کر رسول اکرم (ﷺ) سے جنگ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت طلب کی آپ منافقین کی بد نیتی اور لشکر اسلام کو ان کی شرارتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اجازت دیتے رہے۔ منافقین کے سوا مدینہ میں مسلم خواتین اور معذور صحابہ باقی تھے جو چند صحابہ کسی عذر کے بغیر محض سستی کی بنا پر پیچھے رہ گئے۔ اللہ کے رسول (ﷺ) نے تبوک سے واپسی پر ان لوگوں کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کا اعلان کیا جس پر صحابہ کرام (رض) نے اتنی سختی کے ساتھ عمل کیا جس کی مثال دنیاکی کسی منظم جماعت میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جنگ سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کے لیے مدینہ کی سرزمین اس طرح تنگ ہوگئی کہ ان کے لیے ان کے وجود بھی بوجھ بن گئے۔ بالآخر ان کی توبہ قبول ہوئی التوبہ کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جانوں کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے اس لیے مومن اللہ کے راستے میں لڑنے مرنے سے جی نہیں چراتے ان کے ساتھ جنت کا وعدہ سچا اور پکا ہے جس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی پایا جاتا ہے ان لوگوں کی صفات یہ ہیں یہ سچی توبہ کرنے والے عبادت گزار، ذکر و فکر میں مشغول، روزے کے اہتمام کرنے والے اپنے رب کی بار گاہ میں رکوع، سجود کرنے کے ساتھ امر بالمعروف نہی عن المنکر کے ساتھ اپنی حیا اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اس سورۃ کی ابتدا میں مشرکین سے براءت کا اعلان ہوا ہے لہٰذا اس کے آخر میں دو ٹوک انداز میں حکم دیا ہے اے پیغمبر (ﷺ) ! آپ اور آپ پر ایمان لانے والوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی مشرک کی بخشش کے لیے دعا کریں۔ جہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کا معاملہ ہے انھوں نے اپنے باپ کے ساتھ ان کی بخشش کے لیے دعا کا وعدہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ (رض) کی توبہ قبول کرنے کا اعلان فرماتے ہوئے مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ ذاتی تعلقات اور دنیاوی مفاد کی خاطر کسی کا ساتھ دینے کی بجائے ہمیشہ سچائی کی بنیاد پر لوگوں کا ساتھ دیا کرو۔ سورۃ کا اختتام سرور دو عالم (ﷺ) کے اوصاف حمیدہ پر کیا گیا کہ آپ اپنے ساتھیوں کے لیے نہایت مشفق و مہربان ان کی غلطیوں سے درگزر فرمانے والے اور ساتھیوں کی تکلیف کو ان سے بڑھ کر اپنی تکلیف محسوس کرنے والے ہیں۔ نبی اکرم (ﷺ) کی عظیم جدوجہد، بے مثال کاوش اور شفقت و مہربانی کے باوجود اگر لوگ آپ سے اعراض کرتے ہیں تو آپ کو ان کی مخالفت اور بے اعتنائی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ایسی صورتحال پر آپ کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے کہ آپ کو رب عرش عظیم پر اعتماد کرنا چاہیے اس کے سوا کوئی معبود حق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ نبی اکرم (ﷺ) کے حوالے سے ہر داعی کو یہ فرمان ہے کہ وہ توحید اور دین کی دعوت دیتے ہوئے مشکلات اور پریشانیوں کی پروا کیے بغیر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھے۔ فہم القرآن : (آیت 1 سے 2) ربط کلام : سورۃ انفال کے اختتام میں ایمان، ہجرت اور جہاد کو باہم بھائی چارے کی بنیاد قرار دیا گیا۔ جو اس معیاد پر پورا نہیں اترتا اس کے ساتھ مسلمانوں کا کوئی رشتہ ناطہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اس بنا پرسورۃ التوبۃ کی ابتدا میں ایسے لوگوں سے برأت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سورۃ کے تعارف میں اس کے نام کی وضاحت کردی گئی ہے تفصیل جاننے کے لیے اس کا تعارف ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ کے رسول نے صلح حدیبیہ میں مشرکین مکہ سے اور دوسرے موقعوں پر مشرکین کے ساتھ بقائے باہمی کی بنیاد پر معاہدات کیے تھے۔ صلح حدیبیہ میں مشرکین مکہ کے ساتھ یہ شرائط طے پائی تھیں کہ آپس میں دس سال تک جنگ نہیں ہوگی۔ عرب کا جو قبیلہ ہمارا اور تمہارا حلیف بنے گا اس پر بھی اس معاہدہ کا اطلاق ہوگا۔ اس میں یہ شق بھی شامل تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکہ والوں کے ساتھ آملے تو وہ اسے واپس نہیں کریں گے لیکن اگر کفار میں سے کوئی شخص مسلمانوں کے ساتھ آملے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے اس معاہدہ کی پوری سختی کے ساتھ پابندی فرمائی۔ معاہدہ کی تحریر کے وقت ابو جندل (رض) کو واپس کیا اور کچھ عرصہ کے بعد ابوبصیر (رض) مسلمان ہو کر مدینہ آیا تو آپ نے اسے بھی واپس جانے کا حکم دیا لیکن مکہ والوں نے اس معاہدہ کے اس وقت پر خچے اڑا دیے جب ان کے حلیف قبیلہ بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ پر رات کے وقت شب خون مارا اور ان کا مالی و جانی نقصان کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ کے رسول فی الفور معاہدہ ختم کرنے کا اعلان فرماتے لیکن آپ رحمۃ اللعالمین اور صلح جو شخصیت کے مالک تھے اس لیے آپ نے مکہ والوں کو پیغام بھیجا کہ معاہدہ کی رو سے بنو بکر کو مجبور کریں کہ وہ بنو خزاعہ کا مال واپس کریں اور ان کے مقتولوں کی دیت ادا کریں۔ مکہ والوں نے اس پیغام کا بڑا متکبرانہ جواب دیتے ہوئے اس شق کو ماننے سے انکار کردیا گویا کہ دوسرے لفظوں میں ان کی طرف سے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان تھا۔ نبی اکرم (ﷺ) نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے صحابہ کرام (رض) کو جہاد کی تیاری کا حکم صادر فرمایا۔ آٹھ ہجری دس رمضان المبارک کو دس ہزار کا لشکر جرار لے کر مکہ کی طرف پیش قدمی فرمائی اور اس طرح منصوبہ بندی کی کہ مکہ میں داخل ہوئے تو ایک معمولی واقعہ کے سوا کسی کو ہاتھ اٹھانے کی جرأت نہ ہوسکی اس موقع پر آپ نے بے پناہ شفقت و مہربانی فرماتے ہوئے چار پانچ قومی مجرموں کے سوا باقی سب کو معاف فرما دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مکہ اور حجاز کے لوگ جوق در جوق اور فوج در فوج حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس کے باوجود کچھ مشرکین ایسے تھے کہ جو اس امید پر رومیوں اور یہودیوں کے ساتھ مل کر ساز باز کرتے رہتے کہ عنقریب سلطنت رومہ کا حکمران قیصر مسلمانوں کو تہس نہس کر دے گا۔ خاص کر غزوۂ تبوک کے موقع پر مشرکین کے حوصلے اس قدر بڑھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اب مسلمانوں کا باقی رہنا چند دنوں کی بات ہے۔ ایسی صورت حال میں بیت اللہ کے تقدس اور اس کی مرکزیت کا تقاضا تھا کہ مشرکین کو ہمیشہ کے لیے یہاں سے نکال دیا جائے۔ چنانچہ ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوا اور ٩ ہجری کو اللہ کے پاک نبی (ﷺ) نے حضرت ابو بکر (رض) کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا ابھی حجاج کا قافلہ راستے میں تھا کہ مدینہ میں آپ پر اس سورۃ مبارکہ کی تیس کے قریب آیات نازل ہوئیں۔ جن میں دو ٹوک اور قطعی طور پر اعلان کیا گیا کہ اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) مشرکین سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ اس کے لیے آپ نے حضرت علی (رض) کو بھیجا کیونکہ اس زمانے میں کسی اہم عہد کی منسوخی، کے لیے قوم کا نمائندہ خود اعلان کرتا یا قریبی عزیز کے ذریعے اعلان کروایا جاتا تھا۔ آپ نے حضرت علی (رض) کو فرمایا کہ آپ میرے نمائندہ بن کر چار باتوں کا اعلان کریں حضرت علی (رض) تیز رفتاری کے ساتھ امیر حج حضرت ابو بکر صدیق (رض) کی خدمت میں پہنچے امیر حج نے ان سے استفسار فرمایا۔ امیرًاومامورًا کہ آپ امیر حج بن کر تشریف لائے ہیں یا مامورکی حیثیت سے ؟ حضرت علی (رض) نے عرض کی میں ماتحت کی حیثیت سے حاضر ہوا ہوں کیونکہ میرے ذمہ اللہ کے رسول (ﷺ) نے ایک اعلان کرنے کی ڈیوٹی لگائی ہے۔ چنانچہ انھوں نے جمرہ، عقبیٰ کے قریب کھڑے ہو کر اعلان فرمایا کہ یہ برأت کا اعلان اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ یہاں برأت کا اعلان اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے جب کہ معاہدہ کی نسبت مسلمانوں کی طرف سے کی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیبیہ کا معاہدہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوا تھا کیونکہ جب حضرت عمر (رض) نے اس پر اعتراض کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ میں اللہ کا رسول ہوں لہٰذا یہ معاہدہ صرف آپ کی طرف سے ہی نہیں تھا بلکہ تمام صحابہ نے اسے تسلیم کیا جس وجہ سے اسے مسلمانوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ 1۔ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے کیے ہوئے عہد سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ 2۔ مشرکین چار مہینے کے اندر حدود حرم کو ہمیشہ کے لیے خالی کردیں۔ اس کے بعد کوئی مشرک حدود حرم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ 3۔ اگر تم ایمان لے آؤ تو دنیا اور آخرت میں تمھارے لیے بہتر ہوگا۔ 4۔ اے مشرکو تم کبھی اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ تمھارے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہوگا۔ 5۔ جن مشرکوں نے اپنے عہد کی پاسداری کی ہے اس عہد کی تکمیل کی جائے گی۔ 6۔ آئندہ کوئی شخص برہنہ طواف نہیں کرسکتا۔ 7۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے بغیر کوئی آدمی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے برأت کا اعلان فرما دیا۔ 2۔ کوئی بھی مشرک حدود حرم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ 3۔ اللہ کافروں کو ذلیل و رسوا کرے گا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کفار اور مشرکوں کو دنیا میں ہی ذلیل کرتا ہے : 1۔ ہجرت کے موقعہ پر کفار ذلیل ہوئے۔ (التوبۃ:40) 2۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے موقعہ پر مسلمانوں کو فتح سے ہمکنارفرما کر کفار کو ذلیل کیا۔ (آل عمران : 123تا127) 3۔ فتح مکہ کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے کفار کو ذلیل و خوار کیا۔ (الفتح :1) 4۔ غزوۂ حنین میں مشرک شکست فاش سے دو چار ہو کر ذلیل ہوئے۔ (التوبۃ:26) 5۔ جنگ خندق میں کفار اور اہل کتاب ذلیل ہوئے۔ (الاحزاب : 25تا27)