الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ
جن سے تم نے عہد پیمان کرلیا پھر بھی وہ اپنے عہد و پیمان کو ہر مرتبہ توڑ دیتے ہیں اور بالکل پرہیز نہیں کرتے (١)
فہم القرآن : (آیت 56 سے 59) ربط کلام : گزشتہ سے پیو ستہ : آل فرعون جیسا کردار اختیار کرنے والے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ رسول معظم (ﷺ) نے مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد اہل مدینہ سے بقائے باہمی کا معاہدہ کیا جسے تاریخ میں میثاق مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں آپ نے مدینے کے یہودیوں اور باسیوں سے طے کیا کہ اگر کوئی مدینہ پر حملہ آور ہوگا تو ہم سب مل کر شہر کا دفاع کریں گے۔ اس عہد کی رو سے یہودی آپ (ﷺ) کے حلیف تھے لیکن جب کفار نے بدر کی طرف پیش قدمی کی تو اس موقع پر یہودیوں کی ہمدردیاں اہل مکہ کے ساتھ تھیں اور انھوں نے میثاق مدینہ کی پرواہ نہ کی۔ جب بدر میں مسلمان کا میاب ہوئے تو یہودیوں کے سب سے بڑا قبیلہ بنو قریظہ نے آپ سے معذرت کی اور دوبارہ معاہدہ کیا کہ آئندہم ایسی غلطی نہیں کریں گے لیکن غزوۂ خندق کے موقع پر انھوں نے دوبارہ اہل مکہ کے ساتھ ساز باز کی جس کے نتیجہ میں نبی معظم (ﷺ) نے انھیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم صادر فرمایا جس کی تفصیل تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہے یہاں یہودیوں کی اسی عہد شکنی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھوں نے بار بار عہد شکنی کی اور آئندہ بھی یہ لوگ اس حرکت سے ڈرنے اور رکنے والے نہیں ہیں۔ اگر عہد شکن لوگ کسی جنگ میں قابو آجائیں تو ان پر خوب سختی کرنی چاہیے تاکہ جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ عبرت حاصل کریں اگر ان لوگوں سے یہ خطرہ ہو کہ یہ آڑے وقت میں پھر عہد شکنی کے مرتکب ہوں گے تو مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ وہ ان سے کیے ہوئے عہد کو توڑ دیں لیکن اس موقع پر دوباتوں کا خیال رکھنا لازم ہے ایک تو بد عہد قوم سے عہد توڑتے وقت ضروری ہے کہ ان کی عہد شکنی بالکل عیاں ہوچکی ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان سے جنگ کرنے سے پہلے عہد توڑا جائے یعنی عہد توڑنے میں مسلمانوں کی طرف سے کسی قسم کا دھوکا اور بد نیتی شامل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کفار کے ساتھ بھی خیانت کرنے کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں خیانت سے پہلی مراد اخلاقی اور سیاسی خیانت ہے جس طرح مالی خیانت حرام ہے اسی طرح سیاسی اور اخلاقی خیانت بھی ناجائز ہے۔ اس ہدایت کے ساتھ ہی کفار کو خبر دار کردیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو کبھی عاجز اور بے بس نہیں کرسکتے اور اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو مسلمان حالت جنگ میں کفار کے ساتھ کسی قسم کی خیانت نہیں کرتے انھیں عاجز اور بے بس نہیں کیا جا سکتا۔ مؤرخین نے یہاں عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے کہ حضرت معاویہ (رض) نے اہل روم کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جب معاہدہ ختم ہونے کے قریب آیا تو انھوں نے عساکر اسلام کو رومیوں کی سرحد کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا جونہی فوج حرکت میں آئی حضرت امیر معاویہ (رض) کو رسول (ﷺ) کا فرمان سنا یا گیا کہ یہ دشمن سے بھی عہد شکنی جائز نہیں اخلاقی خیانت ہے جس سے منع کیا گیا ہے امیر المومنین معاویہ (رض) نے یہ حدیث سنتے ہی فوجوں کو واپس بلا لیا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں۔1 جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔2 جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔3 جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔“ (عَنْ ابْنِ عُمَر (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَائِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیرُ إِلٰی ہَذِہِ مَرَّۃً وَإِلٰی ہَذِہِ مَرَّۃً) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (ﷺ) کا بیان نقل کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا منافق کی مثال دو ریوڑوں کے درمیان بکری کی ہے کبھی ایک طرف جاتی ہے اور کبھی دوسری جانب۔“ مسائل : 1۔ عہد شکن لوگوں پر سختی کرنی جائز ہے۔ 2۔ کفار کی سیاسی اور جنگی خیانت کے مقابلے میں عہد شکنی کرنا جائز ہے کیونکہ رسول (ﷺ) نے فرمایا اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ۔ 3۔ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ 4۔ کافر اللہ تعالیٰ کو کبھی بے بس اور عاجز نہیں کرسکتے۔ تفسیر بالقرآن : بدترین لوگ : 1۔ مالدار بخل کو اپنے لیے اچھا تصور کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران :180) 2۔ اللہ کے راستہ سے گمراہ لوگوں کا بد ترین ٹھکانہ ہے۔ (المائدۃ:60) 3۔ بہرے، گونگے بے عقل لوگ چوپاؤں سے بدتر ہیں۔ (الانفال :22) 4۔ بدترین لوگوں کو منہ کے بل جہنم میں پھینکا جائے گا۔ (الفرقان :34) 5۔ بدترین ظالموں کا برا ٹھکانہ ہے۔ (ص :55) 6۔ بدترین لوگ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البینۃ :6) 7۔ بدترین لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے۔ (الحج :72)