كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ ۚ وَكُلٌّ كَانُوا ظَالِمِينَ
مثل حالت فرعونیوں کے اور ان سے پہلے کے لوگوں کے کہ انہوں نے اپنے رب کی باتیں جھٹلائیں۔ پس ان کے گناہوں کے باعث ہم نے انہیں برباد کیا اور فرعونیوں کو ڈبو دیا۔ یہ سارے ظالم تھے (١)
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : آل فرعون کی طرح اہل مکہ کی تباہی ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوئی ورنہ اللہ تعالیٰ کسی کو بے وجہ نہ تباہ کرتا ہے اور نہ ہی اپنے انعام کو عتاب میں تبدیل کرتا ہے۔ قرآن مجید اپنے طے شدہ اسلوب کے مطابق وضاحت کرتا ہے کہ آل فرعون کی اقتدار اور اختیار سے محرومی، مصر جیسے سبز و شاداب ملک سے بےدخلی اور انواع و اقسام کی نعمتوں کے بدلے مختلف قسم کی تنگیوں اور مصائب میں مبتلا ہونے کا سبب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بلاوجہ انھیں اپنی نعمتوں سے محروم کردیا۔ یہ تو کسی قوم کا مسلسل منفی کردار ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کے انعام و کرام سے محروم ہو کر مصائب و آلام میں گھر جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انھیں آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں آل فرعون کا جرم یہ بیان کیا ہے کہ وہ اللہ کی آیات یعنی اس کے احکام کا انکار کرنے والے تھے۔ یہاں آل فرعون اور اس سے پہلی اقوام کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اپنے رب کی آیات کا انکار کرنے والے تھے جس کی وجہ سے ہم نے انھیں غرق کردیا اور وہ سب کے سب ظالم تھے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زمین پر چلنے والے جانوروں سے بد ترین ہیں۔ لفظ رب کا ایک معنی ہے پالنے اور مختلف قسم کی نعمتوں سے نوازنے والا۔ یہاں رب کا لفظ استعمال فرما کر اپنی قربت کا احساس دلاتے ہوئے اپنی نعمتوں کی یاد دہانی کروائی ہے۔ یاد رہے اللہ کے نام میں جلال اور اسم رب میں محبت و قربت کا احساس پایا جاتا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ کَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءَ ۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیعِ سَخَطِکَ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) کی دعاؤں میں سے یہ ایک دعا ہے۔” اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءَ ۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیعِ سَخَطِک“ (اے اللہ میں تیری نعمتوں کے زوال، تیری عافیت کے پھرنے، اور تیرے اچانک عذاب اور ہر طرح کے غصے سے پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ بلاوجہ اپنی نعمت واپس نہیں لیتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور ہر کسی کے ارادے کو جاننے والا ہے۔ 3۔ آل فرعون نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی جس کی وجہ سے انھیں غرق کردیا گیا۔ 4۔ مشرکین مکہ کا انجام بھی آل فرعون کی طرح ہوا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بات کو نہ ماننے والے لوگ چوپاؤں سے بدتر ہیں۔ تفسیر بالقرآن : فرعون اور آل فرعون کا انجام : 1۔ فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اللہ تعالیٰ قحط سالی میں مبتلا کردیا۔ (الاعراف :130) 2۔ فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اللہ تعالیٰ نے غر ق فرمادیا۔ ( البقرۃ:50) 3۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کی گناہوں کی پاداش میں پکڑ فرمائی۔ (آل عمران :11) 4۔ ہم نے انہیں انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ ( الانفال :53) 5۔ قیامت کے دن آ ل فرعون کو برے عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ (المومن :45) 6۔ آل فرعون کو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (المومن :46) 7۔ آسمان و زمین میں کوئی ان پر رونے والا نہیں تھا اور نہ وہ مہلت دئیے گئے۔ (الدخان :29) 8۔ ہم نے اسے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اس کا کوئی حامی اسے نہ بچاسکا۔ (القصص :79)