وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا يَتَّبِعُوكُمْ ۚ سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ أَدَعَوْتُمُوهُمْ أَمْ أَنتُمْ صَامِتُونَ
اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں (١) تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا خاموش رہو۔
فہم القرآن : (آیت 193 سے 198) ربط کلام : مشرکین کی مذمت اور توحید کے دلائل جاری ہیں۔ سورۂ نور آیت 117میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو الٰہ مانتا ہے۔ اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ حق دلائل پر قائم ہے اور جھوٹ کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ لہٰذا شرک کی حمایت میں جتنے بھی جھوٹے دلائل دیے جاتے ہیں وہ دلیل کے ترازو میں پورے نہیں اترتے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے شرک کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (یوسف :40) یہی وجہ ہے جب بھی مشرک سے اس کے باطل معبودوں کے بارے میں جواب طلب کیا جاتا ہے تو وہ بہکی بہکی باتیں کرنے کے سوا کوئی جواب نہیں دے پاتا۔ یہاں ان کے سامنے ان کے معبودوں کی حیثیت اور حقیقت بیان کی جارہی ہے۔ اگر واقعی یہ تمھاری کوئی بھلائی کرسکتے ہیں تو انھیں رہنمائی کے لیے بلاؤ۔ لیکن وہ تمھاری کوئی رہنمائی نہیں کرسکتے۔ تمھارا ان کو بلانا یا نہ بلانا ان کے لیے یکساں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن فوت شدہ بزرگوں کو تم پکارتے ہو۔ وہ تمھاری طرح کے ہی بندے تھے یعنی جس طرح تم رب کے سامنے بے بس اور بے اختیار ہو۔ اسی طرح ہی وہ اپنے رب کے سامنے عاجز اور بے اختیار تھے اور ہیں۔ جس طرح بیماری اور شفا، غربت اور دولت، عزت اور ذلت نفع اور نقصان تمھارے اختیار میں نہیں اسی طرح وہ بھی ان امور پر کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اس کے باوجود تم انھیں مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہو۔ اگر تم اپنے عقیدہ اور دعویٰ میں سچے ہو تو ان کو آواز دو۔ چاہیے تو یہ کہ وہ جواب دیں لیکن وہ تمھیں کبھی جواب نہیں دے سکتے۔ سورۃ الفاطر، آیت : 34میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ نہ صرف تمھاری پکار کا جواب نہیں دے سکتے بلکہ قیامت تک کے لیے ان باتوں سے لا تعلق اور بے خبر ہیں اور محشر کے دن وہ صاف صاف تمھارے عقیدہ اور باتوں کا انکار کریں گے۔ ان دلائل کے باوجود مشرکین انبیاء اور موحّدین کو دھمکیاں دیا کرتے ہیں کہ ہمارے معبود یہ کچھ کرسکتے ہیں۔ اس کے جواب میں انھیں چیلنج دیا گیا ہے کہ کیا ان کے پاس پاؤں ہیں جن سے وہ چل سکیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑ سکیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھ سکیں یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سن سکیں۔ فوت ہونے کے بعد ان کے اعضا مٹی کے ساتھ مٹی ہوچکے اگر کسی کا وجود قبر میں سلامت بھی ہے تو اس دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ اس لیے نبی محترم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ انھیں چیلنج دیں تم اپنے معبودوں کو میرے خلاف اکٹھا کرو اور جو تم میرا بگاڑنا چاہتے ہو بگاڑ لو میں تم سے ایک لمحہ کی مہلت بھی نہیں مانگتا۔ میرا مالک اور خیر خواہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے مجھ پر قرآن مجید نازل کیا ہے وہی نیک بندوں کی خیر خواہی اور دستگیری کرتا ہے۔ جنھیں تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمھاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنے آپ کی۔ اگر تم انھیں رہنمائی کے لیے بلاؤ وہ سنتے ہی نہیں۔ آیت 198میں فرمایا۔ حالانکہ وہ نہیں دیکھ سکتے۔ دیکھنے والوں سے مراد مدفون لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں مشرکین کا عقیدہ ہے کہ ہمارے حالات دیکھتے اور جانتے ہیں۔ تب ہی تو مشرک کہتے ہیں۔ یَا عَبْدَ الْقَادِرْ جَیْلَانِیْ۔ اُنْظُرْ اَلِیْنَا۔ اے عبدالقادر جیلانی ہماری حالت دیکھیے۔ ان سے مرادبت بھی ہو سکتے ہیں جنھیں اس طرح خوبصورتی سے تراشا اور بنایا جاتا تھا کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ خاص کر جو شخص ان مجسموں کو خدا کا اوتار سمجھتا ہو، وہ تو عقیدت و محبت سے ایسا سمجھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حالانکہ ان کے ہاتھ، پاؤں آنکھ، ناک سب کچھ بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ کچھ حرکت نہیں کرسکتے یہی صورت قبر میں مدفون بزرگوں کی ہے جو گرتے کو تھام نہیں سکتے، رونے والے کو دلاسہ نہیں دے سکتے۔ یہاں ہم نہایت خیر خواہی کے جذبہ سے چند سوالات پیش کرتے ہیں جنھیں غور سے پڑھنا چاہیے۔ 1۔ فوت ہونے والے بزرگ بیمار ہوئے، ہزارد عاؤں اور دواؤں کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکے۔ 2۔ فوت ہوئے تو گھر میں میت ہونے کے باوجود روتی ہوئی بیٹیوں، تڑپتی ہوئی والدہ، بلکتی ہوئی بیوی، سسکتے ہوئے بیٹے اور آہ و بکا کرنے والے مرید کو تسلی نہ دے سکے۔ 3۔ شرم وحیا کے پیکر ہونے کے باوجود اپنے آپ استنجا کرسکے نہ غسل۔ 4۔ زندگی میں خود اپنی قبر بنوانے والے بھی اپنے پاؤں پر چل کر قبر تک نہ پہنچ سکے۔ 5۔ جو زندگی میں صرف پنجابی یا کوئی ایک زبان جانتے تھے فوت ہونے کے بعد قبر پر آنے والوں اور دوسری زبانوں میں فریاد کرنے والوں کی زبان سے کس طرح واقف ہوگئے؟ 6۔ جو خود اولاد سے محروم تھے وہ دوسرے کو کس طرح اولاد عطاکر سکتے ہیں ؟ 7۔ جو خراٹے لینے والی نیند یا کسی وجہ سے بے ہوشی کے عالم میں دیکھ اور سن نہیں سکتے تھے اب موت کے بعد کس طرح سننے اور دیکھنے کے قابل ہوگئے؟ 8۔ جو زندگی میں دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتے تھے اب قبر کی منوں مٹی اور مضبوط پتھروں کے درمیان کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔ 9۔ جو اپنی حالت سے کسی کو آگاہ نہیں کرسکتے دوسرے کی حالت رب کے حضور کس طرح پیش کرسکتے ہیں؟ 10۔ جو زندگی میں بیک وقت ایک یا دو، تین آدمیوں سے زیادہ کی بات سن اور سمجھ نہیں سکتے تھے۔ اب بیک وقت سینکڑوں، ہزاروں آدمیوں کی فریاد کس طرح سن سکتے ہیں؟ مسائل : 1۔ ہٹ دھرم لوگ کبھی ہدایت نہیں پا تے۔ 2۔ ساری مخلوق اللہ کے سامنے بے بس اور بے اختیار ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نیک اور متقین کا دوست ہے۔ تفسیر بالقرآن : فوت شدگان نہیں سنتے : 1۔ اللہ جسے چاہے سنا سکتا ہے جو قبروں میں ہیں آپ (ﷺ) ان کو نہیں سنا سکتے۔ (الفاطر :22) 2۔ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ (النمل :80) مشرکین کو انبیاء (علیہ السلام) کے چیلنج : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا مشرکوں کو چیلنج۔ (ھود :35) 2۔ (آپ (ﷺ) فرما دیں کہ بلاؤ اپنے شرکاء کو وہ انھیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ (القصص :64) 3۔ (آپ (ﷺ) فرما دیں اپنے شرکاء کے بارے میں خبر دو جن کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو۔ (الفاطر :40) 4۔ (آپ (ﷺ) فرما دیں کیا تمھارے شرکاء پیدا کرنے اور زندہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ؟ (یونس :34) 5۔ (آپ (ﷺ) فرما دیں کیا تمھارے شرکاء حق کی راہ دکھلا سکتے ہیں ؟ (یونس :35) 6۔ (آپ (ﷺ) استفسار فرمائیں کہ تمھارے شرکاء کچھ کر بھی سکتے ہیں ؟ (الروم :40) 7۔ مشرکین اپنے شرکاء کو بلائیں اگر سچے ہیں۔ (القلم :41) 8۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکوں کو چیلنج۔ (الممتحنۃ:4)