وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ کو اٹھا کر سائبان کی طرح ان کے اوپر معلق کردیا اور ان کو یقین ہوگیا کہ اب ان پر گرا اور کہا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ قبول کرو اور یاد رکھو جو احکام اس میں ہیں اس سے توقع ہے کہ تم متقی بن جاؤ (١)۔
فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل کو تو رات کے ساتھ وابستہ رکھنے کے لیے ان کے سروں پر کوہ طور کا اٹھایا جانا۔ بنی اسرائیل پر کوہ طور کو اٹھائے جانے کا واقعہ قرآن مجید میں چار مرتبہ بیان ہوا ہے سورۃ البقرۃ، آیت : 63، 93اور سورۃ النساء 154میں اس کے لیے ﴿وَرَفَعْنَا﴾ کا لفظ استعمال ہوا۔ جس کا معنیٰ ہے ہم نے ان پر طور کو بلند کیا۔ جس کے بارے میں بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ کوہ طور کو جڑ سے نہیں اٹھایا گیا تھا۔ بلکہ یہ شدید زلزلہ کے باعث اس طرح ڈولنے اور حرکت کرنے لگا کہ انھوں نے سمجھا کہ بس یہ پہاڑ ہمارے اوپر گرنے ہی والا ہے لیکن یہاں قرآن نے ﴿ نَتَقْنُا الْجَبَلَ فَوْ قَہُمْ﴾ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ جن کا معنیٰ ہے کہ ہم نے کوہ طور کو بنیاد سے اٹھا کر ان کے سروں پر منڈلایا۔ مزید فرمایا کہ پہاڑ ان کے سروں پر ﴿ظُلَّۃٌ﴾ کی مانند ہوا۔ ظُلّۃکا معنی ہے سائبان جب انسان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی قدرت و سطوت کے بجائے پہاڑ کی جسامت اس کی گہرائی اور اونچائی کی طرف مائل ہو تو پھر اسے یہ بات سمجھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے کہ اتنا بڑا پہاڑ کس طرح ان کے سروں کے اوپر منڈلایا جا سکتا ہے۔ لیکن جب انسان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی قدرت و سطوت کی طرف مائل ہو تو اسے یہ سمجھنے میں کوئی مشکل اور کسی تاویل کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ جو قادر مطلق ہمارے سروں پر آسمانوں کو بلا سہارا اربوں سال سے قائم رکھے ہوئے ہے اور جس نے زمین کو پانی کے اوپر بچھا رکھا ہے اور جو کھربوں ٹن بادلوں کو ہمارے سروں پر منڈلا تا ہے اس قادر مطلق کے سامنے کوہ طور کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اس لیے قرآن کے الفاظ کا حقیقی مفہوم اور لفظی معنیٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ لاکھڑا کیا تھا اور جب ان کو یقین ہوگیا کہ یہ تو ہمارے اوپر گرنے ہی والا ہے تب انھوں نے اقرار کیا تھا۔ قرآن مجید میں ” ظن“ کا لفظ اکثر مقامات پر یقین کے معنوں میں آیا ہے۔ یاد رہے کہ بنی اسرائیل جیسی مجرم قوم محض گمان کی بنیاد پر ماننے والی نہ تھی۔ لہٰذا یہاں ظن سے مراد یقین کرلینا ہے۔ اس حالت میں انھیں حکم ہوا کہ جو کچھ ہم تمھیں دے رہے ہیں ا سے مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور اس سے رہنمائی حاصل کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکو۔ لیکن یہ قوم اس قدر منافق اور ظالم تھی کہ انھوں نے بظاہر بلند آواز سے کہا کہ ہم نے سن لیا لیکن اپنے دلوں میں کہہ رہے تھے کہ ہم نہیں مانیں گے۔ قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ اتنی بڑی سرکشی اور نافرمانی کا سبب ان کا شرک کرنا تھا۔ کیونکہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پوری طرح سرایت کرچکی تھی۔ ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا میثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّورَخُذُوا مَا آَتَیْنَاکُمْ بِقُوَّۃٍ وَاسْمَعُوا قالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَأُشْرِبُوا فِی قُلُوبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ قُلْ بِئْسَمَا یَأْمُرُکُمْ بِہٖ إِیمَانُکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ﴾[ البقرۃ:93] ” اور جب ہم نے طور کو تمھارے اوپر اٹھا کر تم سے اقرار لیا کہ جو کتاب ہم نے نہیں دی ہے اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونا اور غور سے سننا۔ تو تمھارے اسلاف کہنے لگے کہ ہم نے سن لیا اور (دل میں کہا) ہم مانیں گے نہیں۔ ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑا ان کے دلوں میں رچ بس گیا۔ آپ ان سے کہیے اگر تم مومن ہو تو تمھارا یہ ایمان تمھیں بری باتوں کا حکم دیتا ہے۔“ ایسی کیفیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید قبول کرنا اور ہدایت کے راستہ پر آنا مشکل ترین عمل بن جاتا ہے۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ جب تک انسان قلبی طور پر ہدایت کی طرف راغب نہ ہو۔ اسے جبراً کوئی بات منوائی نہیں جا سکتی۔ جبری ہدایت جبر کے قائم رہنے تک رہتی ہے۔ جونہی جبر ختم ہوگا وہ شخص برائی کی طرف پلٹ جائے گا۔ البتہ کلمہ گو کو جبراً نماز، روزہ اور نیک کاموں کی طرف راغب کرنا حکومت کا فرض ہے لیکن غیر مسلم کو جبراً مسلمان نہیں بنایا جا سکتا۔ مسائل : 1۔ بنی اسرائیل کے سروں پر کوہ طور بلند کیا گیا تھا۔ 2۔ مسلمان کو جبراً اسلام پر عمل کرنے کا حکم دیاجا سکتا ہے۔ 3۔ غیر مسلم کو جبراً مسلمان نہیں کیا جا سکتا۔ تفسیر بالقرآن : تقویٰ کے فوائد : 1۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : 31تا33) 2۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم :34) 3۔ متقی کا ہر کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : 4تا5) 4۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : 61تا64)