وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا ۖ مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَٰلِكَ ۖ وَبَلَوْنَاهُم بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور ہم نے دنیا میں ان کی مختلف جماعتیں کردیں۔ بعض ان میں نیک تھے اور بعض ان میں اور طرح کے تھے اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بد حالیوں سے آزماتے رہے شاید باز آجائیں (١)۔
فہم القرآن : ربط کلام : یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ یہ دنیا میں منتشر رہیں گے۔ یہودیوں پر ہمیشہ کے لیے درج ذیل عذاب مسلط کیے گئے ہیں۔ 1۔ دولت مند ہونے کے باوجود ان پر مسکنت کا مسلط ہونا جس وجہ سے یہودی کبھی مستغنی اور سیر چشم نہیں ہوتا۔ 2۔ یہودی اپنے دشمنوں کی نظر میں ہی نہیں اپنے دوستوں اور حلیفوں کی نظر میں بھی ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔ 3۔ یہودی سیاسی مانگت بنے بغیر دنیا میں کبھی آزاد حکومت قائم نہیں کرسکتے۔ 4۔ یہودی ہمیشہ دنیا میں منتشر رہیں گے۔ یہودیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ بھی اعلان اور فیصلہ ہے کہ یہ دنیا میں ہمیشہ منتشر اور در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ یہاں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آج تو یہودی منظم ہونے کے ساتھ ایک مملکت کے مالک ہیں اس میں کوئی شک نہیں بظاہر یہودی منظم دکھائی دیتے ہیں اور اسرائیل کے نام پر ان کی حکومت بھی قائم ہے۔ قرآن مجید یہاں وضاحت کرتا ہے کہ یہودیوں میں صالح لوگ بھی ہیں اور برے بھی۔ صالح سے مراد اگر دنیوی طور پر شریف النفس انسان لیے جائیں تو ان کی نہایت ہی قلیل تعداد یہودیوں میں ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی اگر دین کے حوالے سے صالح کا مفہوم لیا جائے تو حقیقت میں صالح وہی شخص ہوگا جو نبی آخر الزمان (ﷺ) پر ایمان لانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو اپنی نعمتوں اور احسانات کے ساتھ بھی آزمایا اور مختلف قسم کے عذاب اور دنیوی نقصانات کے ساتھ بھی، لیکن یہ لوگ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے کے بجائے الٹے پاؤں ہی چلنے والے ہیں۔ یاد رہے کہ اتفاق و اتحاد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا انعام ہے انتشار اللہ کا عذاب اور آگ ہے۔ (آل عمران :104) مسائل : 1۔ یہودی دنیا میں ہمیشہ منتشر رہیں گے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہر طرح آزمائش میں ڈالتا ہے مگر انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی۔