وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا ۚ سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ
اور ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل ان کو لکھ کردی (١) تم ان کو پوری طاقت سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں (٢) اب بہت جلد تم لوگوں کو ان بے حکموں کا مقام دکھلاتا ہوں (٣)۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسالت کے منصب پر تو پہلے ہی فائز کردیا تھا اپنی ہم کلامی کا شرف بخشتے ہوئے تختیوں کی شکل میں تورات عطا فرمائی جس میں بنی اسرائیل کے لیے نصیحت اور دین کی متعلقہ تفصیلات درج تھیں۔ قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تحریر کی شکل میں تورات عطا کی تھی شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بنی اسرائیل اہم اور حساس معاملات میں بھی ظاہر پرست واقع ہوئے تھے۔ جس کی بنا پر انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر اس پر اتنا اصرار کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان سے مجبور ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے اپنی قوم کے ستر نمائندے ساتھ لے گئے جنھیں اللہ تعالیٰ نے فوت کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا پر دوبارہ زندہ کیا۔ تفصیل کے لیے اسی سورۃ کی آیت 155کی تلاوت کریں۔ پھر یہ بھی ان کی ظاہر پرستی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی صرف چالیس دن کی غیر حاضری پر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ممکن ہے کہ اسی ظاہر پرستی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تحریری طور پر تورات نازل فرمائی تاکہ تورات کی لکھی ہوئی تختیاں دیکھ کر یہ ایمان لے آئیں۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے ان تختیوں میں ان کی رہنمائی کے لیے ہرمسئلہ لکھ دیا تھا۔ ظاہر ہے تورات کی تحریر کوئی عام تحریر اور اس کی تختیاں کسی انسان کی بنائی ہوئی نہ تھیں نہ معلوم ان تختیوں کے اندر کتنی جاذبیت، کشش اور نورانیت ہوگی۔ اس کی تحریر کتنی خوش نما اور خوبصورت اور دیکھنے والے کو اس تحریر اور تختیوں سے کتناسکون ملتا ہوگا۔ پھر اس میں دین کے متعلق تمام مسائل کا اتنے مؤثر انداز سے احاطہ کیا گیا تھا جس کی نظیر اس سے پہلے دنیا میں نہیں پائی جاتی تھی۔” موعظۃ“ ایسی بات اور انداز کو کہتے ہیں جو انسان کے دل پر براہ راست دستک دے۔ اتنے اوصاف حمیدہ کی حامل کتاب کے بارے میں حکم ہوا کہ اے موسیٰ ! اسے مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ بھی اخلاص کے ساتھ نہایت اچھے طریقے سے اس کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تھام رکھیں یعنی پوری طرح اس پر عمل کرتے رہیں۔ یہی کتاب الٰہی کا سب سے بڑا ادب اور اس کا تقاضا ہے۔ جس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں اس سر زمین کا وارث بنائے گا جس پر فاسق وفاجر لوگ قابض ہوچکے ہیں۔ اس سے مراد اکثر مفسرین نے شام اور فلسطین کی سرزمین لی ہے جو اس وقت ایک ہی ملک شمار ہوتا تھا لیکن کچھ مفسرین نے شام اور فلسطین کے ساتھ مصر کا علاقہ بھی شامل کیا ہے فرعون اور ان کے بڑے بڑے لوگ غرق ہوجانے کے باوجود مصر کے لوگ اس زمانے میں سب سے زیادہ عیاش اور فسق و فجور میں مبتلا تھے۔﴿دَارُ الْفٰسِقِیْنَ﴾ سے مراد جہنم کا گھر بھی ہوسکتا ہے۔ جس میں فاسقین کا جانا یقینی ہے۔ اور مومنوں کو جہنم میں جہنمیوں کا انجام بھی دکھلایا جائے گا۔ تفصیل کے لیے سورۃ المدثر کی 40تا 47آیات تلاوت کریں۔ (عن عمر (رض) قال قال رسول اللّٰہ (ﷺ) إِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِینَ ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقران ] ” حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ساتھ اقوام کو بلند کرے گا اور دوسروں کو پست کردے گا۔“ (أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ تَرَکْتُ فیکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا کِتَاب اللّٰہِ وَسُنَّۃَ نَبِیِّہٖ) [ موطا امام مالک : کتاب الجامع، باب النھی عن القول بالقدر ] ” بلاشبہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑچلا ہوں جب تک تم ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوسکو گے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے تورات تختیوں پر تحریر کی صورت میں نازل فرمائی۔ 2۔ تورات میں ہر چیز کی وضاحت موجود تھی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل نہ کرنے والے فاسق ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : کتاب اللہ سے تمسک کا حکم : 1۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ (آل عمران :103) 2۔ آپ اسے مضبوطی سے تھام لیں جو آپ کو وحی کی گئی ہے۔ (الزخرف :43) 3۔ وہ لوگ جو کتاب کو مضبو طی سے تھامتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ایسے نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کیا جاتا۔ (الاعراف :170)