وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میں، تاکہ وہ نصیحت قبول کریں (١)۔
فہم القرآن : (آیت 130 سے 132) ربط کلام : آل فرعون پر برے حالات اور مومنوں کے صبر و استقامت کا صلہ۔ فرعون اور آل فرعون کے بے پناہ مظالم کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تسلی دی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمھارے دشمن کو تباہ و برباد کرے گا بشرطیکہ تم صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور نماز ادا کرتے رہو۔ فرعون نے جب اپنی دھمکی پر عمل کر دکھایا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے مظالم سے نجات پانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی۔ الٰہی تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کے اسباب و وسائل عنایت فرمائے۔ لیکن انھوں نے تیرا شکریہ ادا کرنے کے بجائے تیرے بندوں کو تیرے راستے سے گمراہ کرنے پر صرف کردیے ہیں۔ اے ہمارے رب ان کے مال و اسباب تباہ و برباد فرما۔ اور ان کے دلوں کو اس قدر سخت کردے کہ تیرا عذاب دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی گئی کہ تمہاری دعا قبول کی جاتی ہے۔ اب تم اور ہارون اس بات پر قائم رہنا اور گمراہوں کے بارے میں جلد بازی نہ کرنا۔ (سورۂ یونس : 88تا89)۔ ﴿وَلَنُذِیقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنٰی دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ﴾[ سورۃ السجدۃ:21) ” ہم انھیں (قیامت کے) برے عذاب سے پہلے ہلکے عذاب کا ذائقہ بھی ضرور چکھاتے ہیں شاید وہ باز آجائیں۔“ ہم مجرموں کو پہلے چھوٹے چھوٹے عذاب میں مبتلا کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ جب یہ لوگ سمجھنے کی طرف توجہ نہ کریں تو ان کو بڑا عذاب آلیتا ہے۔ یہی صورت آل فرعون کو پیش آئی۔ یہ ہدایت پانے کے بجائے گمراہی اور عہد شکنی میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ چنانچہ آل فرعون کو کئی سال تک قحط سالی کے عذاب میں مبتلا کیا گیا تاکہ ان کے دماغ سے دولت کا نشہ اتر جائے اور یہ چھوٹے جھٹکوں کے بعد ہدایت کے راستے پر آجائیں۔ لیکن جونہی انھیں کچھ مہلت اور نعمت میسر ہوتی تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کہتے یہ تو ہماری بہتر منصوبہ بندی اور حسن تدبیر کا نتیجہ ہے اور جب انھیں نقصان کے ذریعے جھٹکا دیا جاتا تو نصیحت حاصل کرنے کے بجائے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو الزام دیتے کہ یہ نحوست تمھاری وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ جس کا یہ جواب دیا گیا کہ نحوست مومنوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تمھاری بد اعمالیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس بات کو جاننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ قدیم زمانے سے جہلا کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے مختلف چیزوں سے بدشگونی لیا کرتے ہیں جن چیزوں سے بدشگونی لی جاتی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مخصوص اوقات میں اگر کوئی پرندہ ان کے مکان کی چھت پر آبیٹھے اگر وہ دائیں جانب اڑے تو ضعیف الاعتقاد لوگ سمجھتے ہیں کہ آج کا دن بہتر گزرے گا یا ہمارا فلاں کام ہوجائے گا اگر یہی پرندہ بائیں طرف اڑ جائے تو سمجھتے ہیں کہ آج کا دن منحوس ہوگا یا فلاں کام الٹ جائے گا۔ ایسے ہی بعض دوسری چیزوں اور آدمیوں کے بارے میں بدشگونی لی جاتی ہے۔ آل فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو برا سمجھتے ہوئے نحوست ان کے ذمہ لگایا کرتے تھے۔ اس طرح نہ صرف خود گمراہی میں مبتلا رہتے بلکہ دوسرے لوگوں کو اس بہانے سے مزید گمراہ کرنے کے درپے ہوتے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے سامنے معجزہ پیش کرتے تو یہ لوگ انھیں جادو گر قرار دیتے ہوئے چیلنج دیتے کہ اے موسیٰ ! تم جس قدر چاہو کرشمہ سازیاں کرو ہم تمھاری اس جادوگری کی وجہ سے کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ ” اَلْحَسَنَۃُ“ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو انتہائی خوبصورت ہو اور اس کی طرف انسان کا دل مائل ہو۔ یہ دنیا کی کوئی بھی نعمت ہو سکتی ہے اور یہ لفظ نیکی اور خیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ نیکی سے بڑھ کر نیک آدمی کو کوئی چیز مرغوب نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں’’ السیئۃ ‘‘ کا لفظ آتا ہے اس سے مراد دنیا کا ہر قسم کا نقصان ہے خواہ وہ بیماری کی شکل میں ہویا مالی خسارے کی صورت میں اس کے لیے’’ السیئۃ ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے بڑے گناہ کو بھی’’ سیئۃ ‘‘کہا جاتا ہے۔ بعض مفسرین نے’’ الحسنۃ ‘‘سے مراد یہاں آل فرعون کی خوشحالی اور’’ سیئۃ ‘‘سے مراد ان کی بدحالی لی ہے۔ آل فرعون کے نحوست کے الزام کے مقابلے میں کہا گیا کہ یاد رکھو جو نحوست تم پر آئی ہے یہ کسی انسان کی طرف سے نہیں بلکہ تمھارے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ بڑے عذاب سے پہلے مجرم قوم پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجتا ہے تاکہ یہ نصیحت حاصل کریں۔ 2۔ مجرم لوگ نیک لوگوں کو ہمیشہ سے منحوس قرار دیتے آئے ہیں۔ 3۔ نحوست کی بذات خود کوئی حیثیت نہیں کیونکہ خیر اور شر کا مالک اللہ ہے۔ 4۔ آل فرعون نے بار بار اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تمسخر اڑایا۔ تفسیر بالقرآن : آل فرعون پر مختلف قسم کے عذاب : 1۔ اللہ نے قوم فرعون پر طرح طرح کے عذاب بھیجے : طوفان، مکڑی، جوئیں، مینڈک، خون وغیرہ۔ (الاعراف :133) 2۔ قحط سالی۔ پھلوں میں نقصان۔ (الاعراف :130) 3۔ آل فرعون پر صبح وشام آگ پیش کی جاتی ہے اور قیامت کے دن انہیں سخت ترین عذاب سے دوچار کیا جائیگا۔ (المومن :46) 4۔ ہم نے آل فرعون سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف :136) 5۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل :103) 6۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الانفال :54) 7۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور دوسروں کو ہم نے غرق کردیا۔ (الشعراء : 66۔67) 8۔ ہم نے تمہیں نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (البقرۃ:50)