سورة الاعراف - آیت 94

وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہوتا کہ گڑگڑائیں (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 94 سے 95) ربط کلام : عرب اور اس کے گرد و نواح کی پانچ اقوام کے کردار اور انجام کا ذکر کرنے کے بعد دنیا میں جزاء و سزا اور آزمائش کا عمومی اصول بیان کیا گیا ہے۔ اہل علم نے ﴿ بِالْبَاسَاءِ﴾ کا معنی غربت، تنگدستی اور ﴿ ضَرَّاءِ﴾ کا مفہوم جسمانی بیماریاں لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک بنیادی اصول ذکر فرمایا ہے کہ ہم قوموں کو تباہ و برباد کرنے سے پہلے غربت و افلاس اور جسمانی امراض کے ذریعے جھنجوڑا کرتے ہیں تاکہ بڑا عذاب آنے سے پہلے اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں۔ گویا کہ اس معمولی اور عارضی گرفت کے پیچھے۔ اللہ تعالیٰ کی دائمی شفقت اور حکمت پنہاں ہوتی ہے کہ لوگوں کو احساس ہو کہ اگر ہم نے نافرمانی کی روش اختیار کیے رکھی تو کوئی ہولناک عذاب ہمیں اچک لے گا۔ لہٰذا ہمیں خدا کی نافرمانی کے بجائے اس کی اطاعت میں رہنا چاہیے اس میں ہمارے رب کی خوشنودی اور دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔ جب لوگ ان جھٹکوں سے سمجھنے اور سلجھنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر اللہ تعالیٰ دوسری آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ غربت و افلاس کی جگہ مال کی فراوانی اور کشادگی دیتا ہے۔ بیماری اور عوارض کی جگہ صحت اور فراغت آجاتی ہے یہ چیزیں اس قدر کھلے انداز میں دے دی جاتی ہیں کہ لوگ اپنے آباؤ اجداد پر آنے والے مصائب اور آلام کو یہ کہہ کر بھول جاتے ہیں کہ یہ تو حالات کے مدو جزر کا نتیجہ تھا، ایسا ہو ہی جایا کرتا ہے۔ بعض لوگ اسے منصوبہ بندی کا فقدان قرار دیتے ہیں اور اپنی کوششوں پر اتراتے ہوئے خود فریبی کا شکار ہو کر کہتے ہیں کہ اگر ہمارے بزرگ یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے تو فلاں فلاں آفت سے مامون رہ سکتے تھے۔ اسی لیے قوم ثمود نے پہاڑوں کو تراش تراش کر محفوظ محلات اور مضبوط قلعے بنائے اور قوم عاد نے دعویٰ کیا کہ ﴿مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً﴾ ” ہم سے زیادہ طاقت ور کون ہوسکتا ہے ؟“ لیکن اللہ کے عذاب نے انھیں تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ یہاں کبھی کوئی بندہ، بشر رہا ہی نہیں۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اکثر اوقات اللہ تعالیٰ کا عذاب کنگال اور کمزور لوگوں کے بجائے معاشی لحاظ سے خوشحال اور سیاسی اعتبار سے صاحب اقبال لوگوں پر آتا ہے۔ یہ عذاب اس قدر اچانک آیا کرتا ہے کہ وہ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ جب اللہ کا عذاب آجائے تو کسی قوم کی سیاسی برتری اور معاشی خوشحالی اسے ہرگز نہیں بچا سکتی۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ آزمائش کے ذریعے لوگوں کے گناہ معاف فرماتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ اچانک اور زبردست ہوا کرتی ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ خوشحالی کے ذریعے آزماتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ تکلیف اور تنگ دستی کے ذریعے بھی آزماتا ہے۔ 6۔ تباہ ہونے والی اکثر اقوام خوشحال ہوا کرتی تھیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی پکڑ اچانک اور زبردست ہوا کرتی ہے : 1۔ جب وہ ہماری عطا کی ہوئی نعمتوں پر خوش ہوجاتے ہیں تو اچانک انکو عذاب کی لپیٹ میں لے لیتے ہیں (الانعام :44) 2۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ (النحل :45) 3۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ انہیں اللہ کا عذاب اپنی لپیٹ میں لے لے یا اچانک قیامت آجائے۔ (یوسف :107) 4۔ کیا بستیوں والے بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ کا عذاب رات کے وقت اپنی لپیٹ میں لے لے اور وہ نیند کی حالت میں ہوں۔ (الاعراف :95) 5۔ کیا وہ لوگ بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں چلتے پھرتے اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔ (النحل :46)