سورة الاعراف - آیت 22

فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

سو ان دونوں کو فریب کے نیچے لے (١) آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے (٢) اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے (٣)،

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 7 یعنی انہیں اطاعت کے مرتبہ سے گراکر معصیت کے مربہ پر لے آیا۔ یادرہے کہ آدم اور ان کی زوجہ شیطان کی بات پر یقین نہیں لیے آئے تھے بلکہ جذبات سے مغلوب ہو کر انہوں نے معصیت کا ارتکاب کیا، ف 8 یعنی طبعی شرم وحیا کی جے سے اپنے بدن کی درخت کے پتو سے چھپانے لگے۔ اس آیت سے یہ بھی مفہوم نکلا کہ ستر چھپانا اور شرم کرنا انسان کی خلقی عادت ہے اور یہ تقوی ٰ میں داخل ہے اور جو کوئی سترنہ چھپائے وہ جانو و ہے۔ ( وحیدی) ف 9 اس آیت اور اس کے علاوہ بہت سے ی دوسری آیات اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں صوت (آواز) ہے اور فرشتے اور آدمی اس کی آواز سن کر سن سکتے ہیں اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔ ( وحیدی) ف 10 لہذا اس کی بات نہ سننا مگر تم اس فریب میں آگئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) نے عرض کی کہ پروردگار اس نے تیری قسم کھائی اور ہم کو یہ معلوم نہ تھا کہ تیرے بندوں میں کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے جو تیرا پاک نام لے کر چھوٹ کھائے، ( ابن کثیر )