وَكَذَٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے (١) تاکہ وہ ان کو برباد نہ کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کردیں (٢) اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ایسا کام نہ کرتے (٣) تو آپ نے ان کو اور جو کچھ غلط باتیں بنا رہے ہیں یونہی رہنے دیجئے۔
ف 5 یہ ان کی دوسری جہالت اور گمراہی تھی اور اس کا عطف وَجَعَلُواْپر ہے یعنی جیسا کہ کھیتی اور جانوروں میں بتوں کا حصہ مقرر کرنا ان کی جہالت تھی ایسے ہی یہ عقیدہ بھی ان کی انتہا ہی گمراہی تھی (رازی) یہاں شرکا ٔسے مراد یا تو شیاطین ہیں جن کے پیچھے لگ کر وہ اپنی اولاد کو زندہ درگور کردیتے تھے اور یا’’ شرکا ٔ‘‘سے مراد بت خانوں کے خادم اور پجاری ہیں جن کی ترغیب پر مشرکین اپنی اولاد کو بت خانوں کی بھینٹ چڑھاتے تھے، چنانچہ بعض لوگ منت مان لیتے کہ اگر میرے هاں اتنے بیٹے پیداہوں تو ان ا میں سے ایک فلاں بت کے نام پر ذبح کروں گا۔ جیسا کہ نبی (ﷺ) کے دادا عبدالمطلب نے آنحضرت (ﷺ) کی والد عبد اللہ کو ذبح کرنے کی منت مانی تھی۔ ف 6 اہل عرب اصل میں حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) کے دین پر ہونے کے مدعی تھے لیکن شیطان نے آہستہ آہستہ بت پر ستی قتل اولاد اور بہت سی غلط باتیں ان کے دین میں داخل کردی تھیں فرمایا کہ شیطان نے اس قسم کی گمراہیاں پیدا کر کے ان کے دین کو خلط ملط کر ڈالا تھا۔ (کذافی الكبیر) ف 7 اس سے اشارہ فرمایا ہے کہ اس قسم کی سب باتیں دین میں افترا پر دازی ہے۔