وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے (١) پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی (٢) اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے (٣) کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔
ف 3 بعثت وجزا کے متعلق ان کے خیلات کی تردید کے اب یہاں سے ان کی دوسری اعتقاد اوعملی حماقتوں اور جہالتوں کا بیان ہورہا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص اہل عرب کے جاہلا نہ نظریات کو جاننا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ سورۃ انعام کی 130 آیتوں کے بعد دے ایات قد خسر الذین قتلو او لا دھم سفھا بغیر علم۔۔۔۔ الا یہ تک تلاوت کرے ابن العربی فرماتے ہیں کہ ابن عباس نے بالکل صحیح کیا ہے کہ اللہ تعلای کے مقابلے میں بتوں کی ترجیح دینے سے بڑی جہالت اور کون سی ہو سکتی ہے (کبیر، قرطبی) مطلب یہ ہے کہ کھیتی اور مو یشیوں میں سے کچھ حصہ صلہ رحمی اور مسافروں کی مہمان کے لیے مخصوص کرلیتے۔