سورة البقرة - آیت 85

ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

لیکن پھر بھی تم نے آپس میں قتل کیا اور آپس کے ایک فرقے کو جلاوطن بھی کیا اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ان کے خلاف دوسرے کی طرف داری کی، ہاں جب وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئے تم نے ان کے فدیے دیئے، لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا اس کا کچھ خیال نہ کیا، کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو (١) تم میں سے جو بھی ایسا کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے عذاب کی مار، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 مدینہ منورہ میں یہود کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریضہ۔ مدینہ کے عرب قبیلوں سے ان کے حلیفانہ تعلقات تھے۔ بنو قینقاع اور بنو نضیر قبیلہ خزرج اور بنو قر یظہ قبیلہ اوس کے حلیف تھے خزرج اور اوس کی آپس میں جنگ رہا کرتے تھی۔ جب کبھی ان کے درمیان لڑائی ہوتی تو وہ دنوں کو حلیف یہودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے یہودی اپنے دشمن کو مارتا اور کبھی دوسرے یہودی کو بھی قتل کر یتا اور اس کا گھر بار لوٹ لیتا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کایہ فعل توریت میں دیئے ہوئے احکام کو خلاف ہے لیکن لڑائی ختم ہوتی اور مغلوب قبیلے کے کچھ آدمی غالب کی قید میں آجاتے تو وہ خود ہی فدیہ دے کر غالب قبیلہ سے اپنے قیدی بھایئوں کو آزاد کراتے اور کہتے کہ ہمیں کتاب الہی کا حکم ہے کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور انہیں قید سے آزاد کراؤ ،۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرماتے ہیں کہ تو یاد رکھتے ہو مگر اس چیز کو بھول جاتے ہو کہ تمہیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے اور ایک دوسرے سے نکا لنے سے بھی منع کیا گیا تھا۔ گو یا تم کتاب الہی کے جس حکم کو اپنی مرضی کے مطابق پاتے ہو اسے مانتے ہو اور جسے اپنی مرضی کے مطابق نہیں پاتے اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر تم واقعی خدا کے حکم پر چلتے ہو تو دونوں جگہ چلو۔ (ابن کثیر) اہل علم فرماتے ہیں کہ ان سے چا عہد لیے گئے تھے (1) قتل (2) اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مدد نہ کرنا اور قیدی کو فدیہ دے کر چھڑالینا وہ صرف فدیہ پر عمل کرتے اور باقی تین کی مخالفت کرتے اور بے محابا ان کا ارتکاب کرتے۔ (قرطبی)