وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب (١)
ف 1 یا جب اللہ تعالیٰ چاہے کہ وہ اس میں نہ رہیں۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ دوزخ بآلا خر فناہو جائے گی بلکہ دوزخ تو جنت کی طرح ہمیشہ رہے گی۔ ( دیکھئے سورۃ ہود آیت 107) لفظ الا ما شا شاللہ سے جو شبہ پیدا ہوتا ہے اس کے جواب شاہ صا حب (رح) فرماتے ہیں جو فرمایا کہ آگ میں رہا کریں گے مگر جو چاہے اللہ تو یہ اس لے کہ اگر دوزخ کا عذاب دائمی ہے تو اس کے چاہنے سے ہے۔ وہ چاہے تو مو قوف کوے لیکن وہ ایک چیز چاہ چکا ،( مو ضح) ف 2 پھر وہ انہیں اپنے ظلم وستم کا تختہ مشق بناتا ہے ،۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے اس طرح ہم آخرت میں ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے ان اعمال کی و جہ سے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے یعنی جس طرح وہ دنیا میں گناہوں کا ارتکاب کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار تے اس طرح آخرت کا عذاب بھگتنے میں بھی وہ ایک دوسرے کے شریک حال ہوں گے۔ (وحیدی )