وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے (١) اس کلام کا کوئی بنانے والا نہیں (٢) اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے (٣)۔
ف 12 یہاں کلمہ یا کلمات سے مراد قرآن ہے۔ یعنی قرآن معجزہ اور آپ (ﷺ) کے صدق نبوت کی دلیل ہونے کے لیے کافی ہے کیونکہ قرآن کے تمام مضامین دو ہی قسم کے ہیں اخبار اور احکام یہاں صدق کا تعلق اخبار سے ہے اور عدل کا احکام سے۔ اور مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تمام خبریں خواہ ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے ہو یا گزشتہ واقعات یا مستقبل کے وعدے اور حوادث سے وہ سب پوے طوپر سچے ہیں اور اس میں جتنے احکام ہیں وہ سب عدل وانصاف پر مشتمل ہیں۔ ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا تر میم کی گنجائش نہیں ہے۔ ایسی کامل کتاب کی موجودگی میں پھر ان شیطانی وساوس یا عقلی شبہات کی کوئ گنجائش باقی نہیں۔( کبیر) پھر ذبیحہ جیسے اہم مسئلہ میں یہ اپنی کج فہمی سے کیوں دخل دے رہے ہیں۔ ف 13 یعنی نہ تو اس قسم کے شبہات قرآن کے معجزہ ہونے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور نہ اس کے اوامر نواہی میں کوئی ترمیم جائز ہے یا جیسے توراۃ وانجیل میں تحریف ہوئی قرآن میں نہیں ہو سکے گی۔ (رازی)