قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ
اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں سو جو شخص دیکھ لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گا اور جو شخص اندھا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گا (١) اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں (٢)
ف 1 یعنی آنکھ میں یہ قوت نہیں ہے کہ اس کو دیکھ لر مگر جو وہ آپ کو دکھادے اس واسطے کے لطیف ہے (مو ضح) متعدد احادیث میں ہے کہ قیامت کے دن مومنین کو اللہ تعالیٰ کودیدار نصیب ہوگا، چنانچہ یہ اہل سنت و حدیث کا متفقہ عقیدہ ہے بعض سلف نے لکھا ہے کہ ادراک کے معنی کسی چیز کی حقیقت کو پالینے کے ہیں اور رو یت کے معنی آنکھ سے دیکھنے کے پس ادراک اخص ہے اور رویت اعم اور اعم کے نفی سے اخص کی نفی لاز م نہیں آتی مطلب یہ ہے کہ آیت میں ادراک کی نفی ہے لہذا دنیا رویت ہوسکتی ہے جیساکہ آخرت میں ہوگی حضرت عائشہ (رض) آنحضرت کے لیے رویت کی نفی کرتی تھیں اور ان کے استدلال کی بنیاد بھی اسی آیت پر تھی جو قرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے مگر حضرت ابن عباس (رض) رویت کے قائل تھے اور کبھی وہ یہ بھی فرماتے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دل کی آنکھ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے (ابن کثیر) مزید دیکھئے سورۃ النجم (آیت 11۔13) ف 2 یعنی غور وفکر کر کے ایمان لائے، ف 3 یعنی ان دلیلوں پر غور نہ کرے اور ایمان نہ لائے۔ ف 4 کہ تمہیں تمہارے چاہینے یانہ چاہنے کے باوجود سیدھی راہ پر ڈال سکوں ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے میرا کام تو یہ ہے کہ بندوں تک اس کا پیغام پہنچا دوں سو وہ پہنچا رہا ہوں