وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور ہماری حجت تھی وہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی (١) ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں۔ بیشک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے۔
ف 6 اس حجت سے مراد وہ دلائل توحید ہیں جو قوم کے مقابلے میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے پیش کئے یہ دلائل اللہ تعالیٰ نے قوم کے مقابلہ میں حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) کو عطا فرمائے تھے اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ باتیں عہد طفولیت کی نہیں ہیں کہ آپ شرک سے درجہ بدرجہ توحید کی طرف بڑھے ہوں کیونکہ اللہ کا نبی معرفت الہٰی میں کبھی غلطی نہیں کرتا۔ (رازی) ف 7 یعنی چونکہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنی جان کی کوئی پروانہ کی اور اپنے آپ کو توحید کی دعوت دینے کے لیے وقف کردیا اس لئے ہم نے بھی ان پر بڑے بڑے احسانات فرمائے ۔ دنیا ہی میں انہیں یہ انعام دیا کہ نیک اولاد سے نوازا اور ان کے بعد ان کی ذریت میں نبوت اور کتاب اتارنے کا سلسلہ جاری کردیا اور اسی سلسلے کے آخری نبی محمد (ﷺ) ہیں۔