وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کردی (١) آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتلایا ہے اور میں ان چیزوں سے جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا ہاں اگر میرا پروردگار ہی ہر چیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے۔
ف 1 قوم کے ساتھ یہ مناظرہ ہوا تو ان کی قوم نے عقیدہ کی صحت پر بہت سے دلائل پیش کئے مثلا انہوں نےİإِنَّا وَجَدۡنَآ ءَابَآءَنَا عَلَىٰٓ أُمَّةٖĬكی دلیل پیش کی۔ نیز حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) كودھمکی دی کہ بت تمہیں آفات وبلیات میں مبتلا کردیں گے۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نےوَقَدۡ هَدَىٰنِۚسے پہلی لیل کا جواب دیا کہ دلیل یقینی کے مقابلے میں تمہارا ’’دین آبا ‘‘بے معنی ہے اور انکی دھمکی کے جواب میں فرمایا کہ پروردگار کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اور بات ہے مگر یہ تمہارے بت اور جھوٹے پروردگار میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (رازی) ف 2 کہ یہ بے جان بت کچھ حقیقت نہیں رکھتے، (ابن کثیر )