فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ (١) یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں (٢)۔
ف 10 اب اصل بات کھولی اور اپنا عقیدہ واضح کیا پہلی تمام باتیں صرف اس لیے تھیں کہ یہ جاہل لوگ اصل حقیقت کے قائل ہوں اور اپنے عقیدہ کی غلطی پر غور کریں۔ (وحیدی) اکثر علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے پیدا ہونے کے بعد ان کو ایک غار (سرب) میں ڈال گیا تھا تاکہ بادشاہ قتل نہ کردے اور یہ کوکب قمر اور شمس کا ْقصہ وہیں پیش آیا اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام)نے تدریجا اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور توحید کی معرفت حاصل کی مگر صحیح یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی یہ ساری گفتگو قوم کے ساتھ مناظرہ کے دوران میں ہے جیسا کہ آخر میں İإِنِّي بَرِيٓء مِّمَّا تُشۡرِكُونَĬ اس پردلالت کرتاہے۔