سورة الانعام - آیت 52

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور ان لوگوں کو نہ نکالئے جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اس کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7 بلکہ ہر ایک کو اپنے عمل کی جوابد ہی خود کرنی ہے مطلب یہ ہے کہ ان بے چاروں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ انہیں اپنے سے دور کریں۔ ف 8 یعنی خدا کے طالب اگرچہ غریب هیں انہی کی خاطر مقدم ہے۔ (موضح ) جیساکہ معلوم ہےکہ مکی زندگی میں نبی (ﷺ) پر ایمان لانے اورآپ (ﷺ) کی پیروی اختیار کرنے والے زیادہ تر غلام موالی اور عام بے بس اور بے کس قسم کے لوگ تھے۔قریش کے بڑے بڑے سردار کھاتے پیتے لوگ نبی (ﷺ) کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ تمہارے ساتھی اس قسم کے گھٹیا طبقہ کے لوگ ہیں۔ اگر ان کو اپنے پاس نہ بیٹھنے دیں تو ہم آپ (ﷺ) کے پاس آئیں گے اور آپ (ﷺ) کی بات سنیں گے۔ اس بارے میں متعدد روایات ثابت ہیں۔ مثلا حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ قریش کے چند سردار نبی (ﷺ) کے پاس سے گزرے، اس وقت آپ (ﷺ) کے پاس صہیب (رض) خباب (رض) عمار (رض) اور ان جیسے اور غیریب قسم کے لوگ بیٹھے تھے کہنے لگے اے محمد (ﷺ) کیا آپ (ﷺ) کو اپنی قوم میں سے یہی لوگ ملے ہیں۔ ؟َ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے اپنا فضل کیا ہے کیا ہم ان کے پیچھے چلنے والے ہو سکتے ہیں۔ انہیں اپنے پاس سے دفع کریں تو شاید ہم بھی آپ (ﷺ) کی بات سن لیں اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر، ابن کثیر)