وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا، اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں (١)۔
ف 6 اوپر کی آیت میں پیغمبروں کے متعلق بیان فرمایا کہ وہ مبشر اور منذرہو تے ہیں۔ اب اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انداز کا حکم دیا ( رازی) یعنی قرآن سن کر اور زیادہ ڈرپیدا ہو اور گنا ہوں سے باز آجاویں آیت سے ان کافروں کا رد مقصود ہے جو یہ گمان رکھتے تھے کہ ان کے معبود اور اٹھاکر وغیرہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے ان کو بچالیں گے اسی طرح ان لوگوں کے لے بھی اس میں عبرت ہے جو اپنے بزرگوں کی سفارش پر تکیہ کر کے بے کھٹکے گناہ کرتے رہتے ہیں کیوکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کسی کی سفارش نہیں چل سکے گی، ؟ (وحیدی، ترجمان )