سورة المآئدہ - آیت 116

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! (١) عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کو کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا (٢) تمام غیبوں کے جاننے والا تو ہی ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 5 اس کا تعلق اوپر کی آیت İوَإِذۡ قَالَ ٱللَّهُ يَٰعِيسَىĬ کے ساتھ ہے گویا پہلے بطور تمہید حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر اپنے انعامات شمار کئے ہیں اور اب اصل مقصد شروع ہوا ہے یہ مخاطبہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھانے کے بعد یہ مکالمہ ہوچکا ہے مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ابتدا میں آیت کہ İيَوۡمَ يَجۡمَعُ ٱللَّهُ ٱلرُّسُلَĬ اور اخر میںİهَٰذَا يَوۡمُ يَنفَعُ ‌ٱلصَّٰدِقِينَ صِدۡقُهُمۡĬ سے جن سے یقینا قیامت کا دن مراد ہے۔، ( کبیر، قرطبی) اس غرض بھی نصاریٰ کو تو بیخ ہے،( ابن کثیر ) ف 6 تیرا کوئی شریک نہیں پھر بھلا میں اور میری ولده تیرے شریک کیسے ہو سکتے ہیں۔ ف 7 یعنی میں تو تیرے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں پھر بندے کی کیا مجال کہ ا پنے آقا کے مقابلہ میں خدائی کا دعویٰ کرے ف 8 یعنی بالفرض میں نے ایسی کوئی بات کہی ہو تو تجھے اس کا ضرور علم ہوگا کیونکہ تجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی ف 9 تو زبان سے نکلالی ہوئی بات کیوں نہ جانے گا ! ف 10 تیرے سواکسی کو علم غیب نہیں جس بندے کے پاس جو بھی علم ہے وہ سب تیرا عطاکردہ ہے اور کسی کا علم تیرے علم کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتا جتنی سمندر کے مقابلہ میں پانی کا ایک قطرہ۔